رسائی کے لنکس

انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی تیار، تحریک انصاف احتجاج پر مُصر


غیر جمہوری اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ملک میں عمران خان کے بقول صحیح و مضبوط جمہوری نظام کے قیام کے لیے وسط مدتی انتخابات ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔

نوازشریف انتظامیہ کے مطالبے پر انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جس سے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کے بقول ایک ایسا انتخابی عمل متعارف کروایا جا سکے گا جس کی شفافیت پر کوئی سوال نا اٹھایا جائے۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ کمیٹی اپنی پہلی ملاقات ہی میں اپنے سربراہ کو نامزد کرے گی جبکہ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد کو اس کا سربراہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے گزشتہ سال انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات پر 14 اگست کو دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی ریلی کے اعلان کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس کمیٹی کی تشکیل کا کہا تھا۔

شیخ آفتاب کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی کی تشکیل کا حزب اختلاف کے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں۔

’’انہیں (تحریک انصاف) خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاقی اور خاص طور پر پنجاب حکومت جس طرح ملک کو آگے لے جا رہے ہیں، چار سال بعد بھی انہیں اپنے مستقبل میں اندھیرا نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے شور مچاررہے ہیں ورنہ اگر اصلاحات ہوئیں تو آئندہ انتخابات کے لیے ہوں گی نا کہ جو انتخابات ہوچکے ہیں اور وہ بھی تجاویز آئیں گی، پارلیمان سے پاس ہوں گی تو پھر کہیں یہ ہوگا۔‘‘

نواز انتظامیہ کی طرف سے یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں تقریبات منعقد کرنے کا حال ہی میں اعلان کیا گیا اور اس کے لیے پانچ وزرا کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ رواں ہفتے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چار حلقوں کی بجائے افغانستان کی طرح 2013 کے انتخابات کی مکمل جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا۔

غیر جمہوری اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ان کے بقول صحیح و مضبوط جمہوری نظام کے قیام کے لیے وسط مدتی انتخابات ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک سمیت کچھ سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف کے احتجاج کا حصہ بننے کا اعلان کر چکی ہیں اور پی ٹی آئی کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ 33 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے باوجود احتجاج کیا جائے گا۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بقول حکومت اپنی کارکردگی اور اس احتجاج کو لے کر پریشان ہے۔

’’بجلی کے بحران میں ایک سال میں وہ کوئی بہتری نہیں لاسکے بلکہ پچھلے سال سے بدتر ہورہا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جاریا ہے کہ خیبرپختونخواہ حکومت سے نا تعاون اور نا ہی رابطہ رکھا جا رہا ہے۔ کرچی آپریشن کسی سرے چڑھتا دیکھائی نہیں دیتا۔ تو عوامی رائے تبدیل ہورہی ہے اور دیگر جماعتیں اس سے علیحدہ نہیں رہ سکتیں۔‘‘

رواں ہفتے ہی پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے نواز انتظامیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس تعجب کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے کو حکومت نے تسلیم کرنے میں تاخیر کیوں کی۔

تحریک انصاف کے عہدیداروں کے مطابق احتجاجی مہم میں مزید سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کے لیے رابطے بھی کیے جارہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا یہ احتجاج اصلاحات کے عمل کو جلد مکمل کروانے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG