اسلام آباد —
الیکشن کمیشن نے سلامتی اور سیلاب کے خدشات کے باوجود ضمنی انتخابات تمام 42 حلقوں میں مقررہ وقت پر کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے شفاف اور آزادانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے حکام نے کہا ہے کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعنیات کی جائے گی۔
پیر کو نگراں چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اعلٰی سطحی اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے علاوہ سیکرٹری دفاع، محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل اور صوبائی حکومتوں کے اعلٰی افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ تقریباً 2000 حساس ترین قرار دیے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی نا صرف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر بلکہ اندر بھی کی جائے گی۔
سیکرٹری دفاع آصف یٰسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضمنی انتخابات کے شفاف اور آزادانہ انعقاد میں فوج الیکشن کمیشن کی معاونت کو تیار ہے تاہم فوجیوں کی تعنیاتی کے طریقہ کار اور تعداد کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔
’’ابھی تو پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ کوئی آ جاتا ہے اور کہتا ہے ایک اور (پولنگ اسٹیشن) حساس ہو گیا ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندے غلام مرتضیٰ ستی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا جب کہ اجلاس کو خیبرپختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک حلقے میں انتخابات کے دوران شدت پسندوں کے حملوں کے ممکنہ خطرات سے آگاہ بھی کیا گیا۔
’’بنوں اور ڈی آئی خان میں جیلوں (پر حملوں) کے واقعات ہوئے وہ آپ کے سامنے ہیں پھر اس طرح کے جو سیکورٹی ایشوز ہیں تو وہاں کہا گیا کہ ہمیں اس بات کی مکمل انفارمیشن ہے کہ شدت پسند ایسے (حملے) کریں گے۔ جن لوگوں نے ایسے حملے کرنے ہوتے ہیں وہ مہنوں پہلے وہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے قریب صوبہ خیبرپختونخواہ کے ان دو شہروں میں گزشتہ ایک سال کے دوران جیلوں پر القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں نے حملے کرکے اپنے کئی سیکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا چکے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ان واقعات کے بعد ملک میں شدت پسندی کی کارروائیاں کروانے کا انتباہ کر چکی ہے۔
تاہم سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ اس حلقے سے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی رضا مندی پر الیکشن کمیشن نے وہاں انتخابات 22 اگست کو کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس بار انتخابات کو ان کے بقول مزید شفاف بنانے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات فوجیوں کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں۔
’’تعینات فوجی اگر کوئی غلط حرکت دیکھتا ہے اور ریٹرننگ افسر اسے ہدایت نہیں دیتا تو وہ اپنے اعلیٰ افسر کو مطلع کرے گا جس کے پاس ایک مجسٹریٹ کے اختیارات ہونگے اور وہ الیکشن لے گا۔‘‘
الیکشن کمشن کو 11 مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور صدارتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق اپوزیشن کے تحفظات کے باعث سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر استعفے کے بعد کمیشن کے دیگر چار ممبران سے بھی مستفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حال ہی میں حکومت کی طرف سے بھی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
پیر کو نگراں چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اعلٰی سطحی اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے علاوہ سیکرٹری دفاع، محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل اور صوبائی حکومتوں کے اعلٰی افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ تقریباً 2000 حساس ترین قرار دیے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی نا صرف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر بلکہ اندر بھی کی جائے گی۔
سیکرٹری دفاع آصف یٰسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضمنی انتخابات کے شفاف اور آزادانہ انعقاد میں فوج الیکشن کمیشن کی معاونت کو تیار ہے تاہم فوجیوں کی تعنیاتی کے طریقہ کار اور تعداد کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔
’’ابھی تو پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ کوئی آ جاتا ہے اور کہتا ہے ایک اور (پولنگ اسٹیشن) حساس ہو گیا ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندے غلام مرتضیٰ ستی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا جب کہ اجلاس کو خیبرپختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک حلقے میں انتخابات کے دوران شدت پسندوں کے حملوں کے ممکنہ خطرات سے آگاہ بھی کیا گیا۔
’’بنوں اور ڈی آئی خان میں جیلوں (پر حملوں) کے واقعات ہوئے وہ آپ کے سامنے ہیں پھر اس طرح کے جو سیکورٹی ایشوز ہیں تو وہاں کہا گیا کہ ہمیں اس بات کی مکمل انفارمیشن ہے کہ شدت پسند ایسے (حملے) کریں گے۔ جن لوگوں نے ایسے حملے کرنے ہوتے ہیں وہ مہنوں پہلے وہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے قریب صوبہ خیبرپختونخواہ کے ان دو شہروں میں گزشتہ ایک سال کے دوران جیلوں پر القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں نے حملے کرکے اپنے کئی سیکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا چکے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ان واقعات کے بعد ملک میں شدت پسندی کی کارروائیاں کروانے کا انتباہ کر چکی ہے۔
تاہم سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ اس حلقے سے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی رضا مندی پر الیکشن کمیشن نے وہاں انتخابات 22 اگست کو کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس بار انتخابات کو ان کے بقول مزید شفاف بنانے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات فوجیوں کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں۔
’’تعینات فوجی اگر کوئی غلط حرکت دیکھتا ہے اور ریٹرننگ افسر اسے ہدایت نہیں دیتا تو وہ اپنے اعلیٰ افسر کو مطلع کرے گا جس کے پاس ایک مجسٹریٹ کے اختیارات ہونگے اور وہ الیکشن لے گا۔‘‘
الیکشن کمشن کو 11 مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور صدارتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق اپوزیشن کے تحفظات کے باعث سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر استعفے کے بعد کمیشن کے دیگر چار ممبران سے بھی مستفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حال ہی میں حکومت کی طرف سے بھی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔