تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے آج انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیت کے بعد وکٹری سپیچ دی۔ تقریر میں انہوں نے کرپشن کے خلاف اپنے عزم کا اظہار کیا، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے پرہیز کا عندیہ دیا، ہمسایہ ممالک سے پرامن مکالمے اور کاروباری تعلقات کے فروغ کا ذکر کیا۔
عمران خان کی تقریر پر سوشل میڈیا پر بہت مثبت ردعمل سامنے آ رہے ہیں جن میں تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ ساتھ مخالفین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے بھے شامل ہے۔
ممتاز وکیل اور سیاسی تجزیہ نگار یاسر لطیف ہمدانی، جو حالیہ دنوں میں عمران خان کی سیاست کے ناقد رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک بہترین تقریر تھی‘‘۔ اُنھوں نے کہا: ’’اگرچہ میں پچھلے برسوں کی تاریخ کی وجہ سے ابھی بھی اس سے مطمئن نہیں ہوں مگر پھر بھی میں یہ دعا کرتا ہوں کہ عمران خان اپنے وعدوں کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور پاکستان کے لوگوں اور خصوصا اقلیتوں کے لئے کھڑے ہوں گے‘‘۔
صحافی عمر وڑائچ اور عمر چیمہ دونوں نے اپنی ٹویٹس میں لکھا ہے کہ تقریر بہت اچھی تھی۔
صحافی و اینکر عاصمہ شیرازی لکھتی ہیں کہ یہ عمران کی پہلی اچھی تقریر ہے۔ عمران نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان پر ایسے حکومت کریں گے جیسے پہلے کبھی نہ کی گئی ہو۔ ان کے سامنے بہت سی مشکلات کھڑی ہیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار مشرف زیدی کہتے ہیں کہ ’’عمران کی تقریر کا ہر لفظ حوصلہ افزا تھا۔ عمران نے تقریر کے دوران عجز، صلح جوئی اور تفکر اختیار کیا‘‘۔
صحافی اور تجزیہ نگار ماروی سرمد نے کہا کہ ’’اگرچہ عمران کی تقریر زیادہ تر تو عوام کو لبھانے والے نکات پر مبنی ہے اور ان کی کم ہی عملی حیثیت ہے اور اگر وہ اپنے الفاظ میں مخلص ہیں تو یہ ایک بہت اچھی تقریر تھی‘‘۔
اسد منیر نے لکھا ہے کہ عمران خان کی تقریر کی بہترین بات ہندوستان سے مکالمے اور تجارت کے ذریعے تعلقات قائم کرنے کا عزم ہے۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی ’’مودی کا یار‘‘ بھی نہیں کہے گا۔
اسامہ خلجی لکھتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن خارجہ پالیسی، حکومتی اخراجات میں کمی، وزیر اعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنانے کا وعدہ، اقلیتوں اور مزدوروں کے حقوق کی بات اور دھاندلی کے الزامات کی شفاف تحقیق کا وعدہ۔۔۔ عمران کی تقریر بہت تازہ دم کرنے والی تھی۔
جہاں سوشل میڈیا پر عمران خان کی تقریر اور ان کے وعدوں کی تعریف ہوتی رہی وہیں بعض صحافی، تجزیہ نگار اور صارفین ان کی تقریر پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے۔
صحافی مرتضیٰ سولنگی نے ٹویٹ کی کہ اپنے مؤقف میں انتہائی سخت عمران خان نے جیسے ہی اقتدار دیکھا ہے تو فوراً پرامن مؤقف اختیار کر لیا ہے۔ جو وعدے انہوں نے کئے ہیں ان میں سے آدھے تو وہ کبھی پورے کرنے والے نہیں اور باقیوں پہ عمل کرنے کی انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اجازت نہیں ملے گی۔
صحافی عمر علی لکھتے ہیں کہ عمران خان کے الفاظ پر شک کرنے پر معاف کیجئے گا جب کہ انہوں نے اپنی الیکشن کیمپین ختم نبوت پر مذہبی جذبات ابھارنے پر ختم کی ہے اور ابھی کل ہی ان کے پارٹی کے ممبر سیاسی مخالفین کو ہندوستان کے ایجنڈے کو بڑھانے کا الزام لگا رہے تھے۔
طاہر القادری نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ وہ عمران خان کی تقریر کے ایجنڈے کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں۔