پاکستان میں مون سون بارشیں نسبتاً کم ہونے کے باعث موسم شدید گرم ہے اور حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں بجلی کی روزانہ طویل دورانیے کی بندش کا سلسلہ جاری ہے جس سے روزے داروں کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔
اوسطاً 18 گھنٹوں تک کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف گرمی سے نڈھال شہری سراپا احتجاج ہیں اور اتوار کو بھی کئی علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری رکھا۔
توانائی کا بحران حل کرنے میں ناکامی پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں خود حکمران جماعت کے بعض رہنما بھی شامل ہیں۔
ان میں قومی اسمبلی کے رکن ندیم افضل گوندل نے دھمکی دی ہے کہ اگر غیر مساوی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بند نا ہوا تو وہ پارلیمان کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔
’’میں اپنی قیادت سے ضرور بات کروں گا ... لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی لیکن انصاف تو ہو سکتا ہے۔ اگر انصاف نہیں ہوگا تو میں اس نشست پر بالکل نہیں رہوں گا۔‘‘
ندیم افضل نے کہا کہ چونکہ بیشتر اراکین پارلیمان خود صنعت کار ہیں اس لیے اس شعبے کو دوسروں کی نسبت کم مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران سے کاشت کار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
’’آج اس ملک میں غذائی تحفظ ہے تو کاشت کاروں کی وجہ سے ہے، جو چیزیں وہ پیدا کر رہے ہیں وہی آپ کے ملک میں ہے اور کوئی چیز آپ کے پاس نہیں ہے ... غیر ملکی سرمایہ کار آپ کے ملک میں نہیں آ رہی تو اگر آپ زرعات کو ہی تباہ کر دیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا۔‘‘
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی قلت اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیےتمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی احمد مختار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ چشما دوم جوہری تنصیب سے اتوار کو بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع ہونے سے قومی گرڈ میں 300 میگا واٹ بجلی کی بحالی سے صورت حال میں بہتری آئے گی جب کہ ان کے بقول حالیہ دنوں میں مجموعی طور پر 800 میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جا چکی ہے۔
تاہم سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ رواں سال موسم سرما کے طوالت اختیار کرنے کے باعث دریاؤں میں پانی کے بھاؤ میں کمی نے پن بجلی کی پیداوار کو متاثر کیا ہے، جب کہ قدرتی گیس کی کمی اور تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایندھن کی فراہمی میں مشکلات نے بھی ان کی پیداواری صلاحیت کم کر دی ہے۔
اوسطاً 18 گھنٹوں تک کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف گرمی سے نڈھال شہری سراپا احتجاج ہیں اور اتوار کو بھی کئی علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری رکھا۔
توانائی کا بحران حل کرنے میں ناکامی پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں خود حکمران جماعت کے بعض رہنما بھی شامل ہیں۔
ان میں قومی اسمبلی کے رکن ندیم افضل گوندل نے دھمکی دی ہے کہ اگر غیر مساوی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بند نا ہوا تو وہ پارلیمان کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔
’’میں اپنی قیادت سے ضرور بات کروں گا ... لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی لیکن انصاف تو ہو سکتا ہے۔ اگر انصاف نہیں ہوگا تو میں اس نشست پر بالکل نہیں رہوں گا۔‘‘
ندیم افضل نے کہا کہ چونکہ بیشتر اراکین پارلیمان خود صنعت کار ہیں اس لیے اس شعبے کو دوسروں کی نسبت کم مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران سے کاشت کار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
’’آج اس ملک میں غذائی تحفظ ہے تو کاشت کاروں کی وجہ سے ہے، جو چیزیں وہ پیدا کر رہے ہیں وہی آپ کے ملک میں ہے اور کوئی چیز آپ کے پاس نہیں ہے ... غیر ملکی سرمایہ کار آپ کے ملک میں نہیں آ رہی تو اگر آپ زرعات کو ہی تباہ کر دیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا۔‘‘
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی قلت اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیےتمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی احمد مختار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ چشما دوم جوہری تنصیب سے اتوار کو بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع ہونے سے قومی گرڈ میں 300 میگا واٹ بجلی کی بحالی سے صورت حال میں بہتری آئے گی جب کہ ان کے بقول حالیہ دنوں میں مجموعی طور پر 800 میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جا چکی ہے۔
تاہم سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ رواں سال موسم سرما کے طوالت اختیار کرنے کے باعث دریاؤں میں پانی کے بھاؤ میں کمی نے پن بجلی کی پیداوار کو متاثر کیا ہے، جب کہ قدرتی گیس کی کمی اور تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایندھن کی فراہمی میں مشکلات نے بھی ان کی پیداواری صلاحیت کم کر دی ہے۔