کرونا وبا کے پیش نظر سندھ کے علاوہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی (این سی او سی) کی ہدایت پر مکمل لاک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا ہے جب کہ سندھ میں ہفتے کو خریداری کا آخری دن ہے اور شام سے مکمل لاک ڈاؤن کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں آئندہ ہفتے 13 یا 14 مئی کو عیدالفطر منائی جائے گی۔ وزارتِ داخلہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق 10 سے 15 مئی تک چھٹیوں کا اعلان کیا گیا۔ لیکن عملی طور پر چھٹیوں کا آغاز ہفتہ آٹھ مئی سے ہی ہو گیا ہے اور حکومت نے بھی آٹھ سے 16 مئی تک ملک میں مکمل لاک ڈاون نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان چھٹیوں کے دوران بینک بھی بند کر دیے جائیں گے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلامیے کے مطابق تمام کمرشل بینکوں کی ملک بھر میں برانچیں آٹھ مئی کو صبح نو سے دوپہر دو بجے تک بغیر کسی وقفے کے کھلی رہیں گی جس کے بعد بینک بھی 8 روز کے لیے بند ہو جائیں گے۔
پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مختلف شہروں میں مثبت کیسز کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں چار ہزار 298 افراد وائرس سے متاثر ہوئے جب کہ 140 اموات رپورٹ ہوئیں۔
این سی او سی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا مقصد پاکستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود کرنا ہے تاکہ کرونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران بڑھتے کیسز کی تعداد پر قابو پایا جا سکے۔
دارالحکومت اسلام آباد کی صورتِ حال
کرونا وبا سے دارالحکومت اسلام آباد شدید متاثر رہا ہے جہاں اب تک مصدقہ کیسز کی تعداد 77 ہزار 684 ہے جب کہ شہر میں اموات کی تعداد 706 ہے۔
شہر میں مثبت کیسز کی شرح 12 فی صد تک پہنچ گئی لیکن اب اس میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
شہر میں لاک ڈاؤن کے آغاز پر جمعے کو شام چھ بجے کے بعد پولیس نے شہر کے بڑے مراکز جن میں جی نائن مرکز، سپر مارکیٹ، جناح سپر مارکیٹ، بلیو ایریا، مختلف مالز اور مارکیٹیں بند کرا دی تھیں۔
شہر میں صرف ادویات، بیکری اور دن کے اوقات میں اشیا خور و نوش کی دکانیں کھلی ہیں جب کہ ملبوسات، جوتوں اور عید کی شاپنگ کی تمام دکانیں بند کرا دی گئی ہیں۔
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے دن کے اوقات میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے اور بعض جگہوں پر کھلی ہوئی دکانیں بند کرا دیں۔
عید کے دنوں میں اسلام آباد کے تمام تفریحی مقامات بھی بند کردیے گئے ہیں۔ پیر سوہاوہ، شکر پڑیاں، فیصل مسجد، دامنِ کوہ اور مری کی طرف جانے والے راستے بند کرکے پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
بیرون شہر سے آنے والے سیاحوں کو شہر کے داخلی مقامات پر روکا جا رہا ہے۔
اس صورتِ حال پر انجمنِ تاجران نے کاروبار جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ تمام تاجر چاند رات تک اپنا کاروبار جاری رکھیں۔
انجمن تاجران پاکستان کے صدر اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت کی طرح 24 گھنٹے کاروبار کرنے کی اجازت دے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اگر کوئی ریلیف نہیں ہے تو انہیں کاروبار کرنے دے۔ ان کے بقول نو دن کاروبار بند رکھنا تاجروں کو مارنےکے مترادف ہے۔
انجمن تاجران نے اعلان تو کیا لیکن حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے این سی او سی کی ہدایت کے مطابق ہر جگہ پر کاروباری مراکز بند کرا دیے ہیں۔
پنجاب میں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد جاری
پنجاب میں بھی این سی او سی کی ہدایت پر جمعے کی شام سے لاک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ تاہم اب تک انٹرسٹی ٹرانسپورٹ چل رہی ہے اور عید منانے کے لیے مختلف شہروں کے درمیان ٹرانسپورٹ کا رش موجود ہے۔
این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک صوبے میں کرونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد تین لاکھ 16 ہزار سے زائد ہے۔ جب کہ آٹھ ہزار 951 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
صوبے بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید ایک ہزار 995 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور 82 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پبنجاب میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات سمیت بڑے شہروں میں حکومت نے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کرایا ہے اور بڑے کاروباری مراکز بند کرا دیے ہیں۔ لیکن اندرونِ شہر کئی مقامات اب بھی کھلے ہیں اور ایس او پیز کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
پنجاب حکومت نے اس حوالے سے اقدامات سخت کرنے کا اعلان کیا ہے اور عید الفطر پر نماز عید کے بڑے اجتماعات کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے بڑے اجتماعات نہیں ہوں گے۔ جب کہ عید ملن پارٹیوں اور ڈیروں پر سیاسی رہنماؤں کی طرف سے دعوتِ عام دینے جیسے اقدامات کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔
پنجاب کے وزیرِ قانون راجہ بشارت نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے گھروں پر رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ این سی او سی کے مطابق کرونا وبا کے حوالے سے آئندہ 15 سے 20 دن انتہائی اہم ہیں۔ ان کے بقول ان دنوں میں انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کرونا کو ہرانا ہے یا بھارت جیسی صورتِ حال پیدا کرنی ہے اور اگر لوگوں نے احتیاط نہ کی تو سب کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
بلوچستان میں پابندیاں مسترد
رقبے کے لحاظ سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں اب تک کرونا کیسز کی تعداد 23 ہزار سے زائد ہے اور ہلاک شدگان کی تعداد 246 ہو گئی ہے۔
صوبے میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا لیکن مقامی تاجر تنظیموں اور دکان داروں کی طرف سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
کوئٹہ میں ہمارے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق این سی او سی کے آٹھ مئی سے 16 مئی تک کاروبار بند کرنے کے فیصلے کو تاجر برادری نے مسترد کردیا ہے۔
ہفتے کے روز کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر بڑے شہروں میں تمام کاروباری مراکز کھلے رہے اور بازاروں میں لوگوں کا بہت زیادہ رش رہا۔
بازاروں میں رش کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے اور ایس او پیز کے بغیر ہی شہروں میں ٹرانسپورٹ جاری ہے۔
سندھ میں شاپنگ کا آخری دن
سندھ حکومت نے این سی او سی کی ہدایت کے باوجود ایک دن مزید دکانیں کھلی رکھنے کا اعلان کیا اور ہفتے کو بھی شہر میں مختلف کاروباری مراکز کھلے ہوئے ہیں۔
اس وقت کراچی شہر میں بازار کھلے ہونے اور عید کی خریداری کے لیے لاکھوں لوگ سخت گرمی اور رمضان کے باوجود باہر نکلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے شہر کی بیشتر سڑکیں بلاک ہوچکی ہیں۔
سندھ میں کرونا ایس اوپیز کے تحت نئی پابندیاں نو سے 16 مئی تک نافذ ہوں گی۔ اس دوران عید بازاروں اور چاند رات پر لگائے جانے والے تمام بازاروں پر پابندی ہوگی۔ 16 مئی تک صرف ضروری کاروباری سرگرمیوں کو صبح پانچ سے شام سات بجے تک اجازت ہو گی۔ تاہم اشیائے خور و نوش، میٹ و چکن شاپس، ڈیری شاپس، بیکریز، ادویات کی دوکانیں اور پیٹرول پمپس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
سندھ بھر میں تمام سیاحتی تفریحی مقامات عید تعطیلات کے دوران بند رہیں گے۔ ریسٹورنٹس کے اندر یا باہر بیٹھ کر کھانے پر مکمل پابندی برقرار رہے گی۔ ریسٹورنٹس پر ٹیک آوے کی اجازت شام سات بجے تک ہوگی۔ شام سات بجے کے بعد ریسٹورنٹس پر صرف ہوم ڈیلیوری یا ڈرائیو تھرو کی اجازت ہوگی۔
صوبے میں انٹر سٹی اور بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ 16 مئی تک بند رہیں گی۔ نجی گاڑیوں، ٹیکسی، رکشے میں نصف نشستیں خالی رکھنی ہوں گی۔ ایس اوپیز کے بغیر سفر پر پابندی ہو گی۔
خیبر پختونخوا میں مثبت کیسز کی شرح قدرے زیادہ
خیبر پختونخوا اس وقت کرونا سے شدید متاثر ہے اور اس کے کئی اضلاع میں کرونا کی شرح انتہائی بلند ہے۔ صوبے کے تفریحی مقام مالاکنڈ اور سوات میں مثبت کیسز کی شرح 40 فی صد سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک صوبے میں مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ 23 ہزار سے زائد ہے جب کہ صوبے میں تین ہزار 562 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں حالات خاصے خراب رہے اور اس کے بڑے شہر پشاور، نوشہرہ، مردان اور سوات ملک بھر میں سب سے زیادہ کیسز کی مثبت شرح رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان شہروں میں پہلے ہی سختی کی جا رہی تھی اور جزوی لاک ڈاؤن لگایا گیا اور اب مکمل لاک ڈاؤن لگایا جا رہا ہے۔
جمعے کی شام مکمل لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے شہروں میں بڑے مراکز بند کرا دیے اور بیشتر عید شاپنگ کے مرکز بند ہیں۔ لیکن اندرون شہر چھوٹی دکانیں اور چھوٹے کاروباری مرکز ابھی بھی کھلے ہوئے ہیں۔
شہروں میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ مکمل لاک ڈاؤن کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں میں صورتِ حال بدستور تشویش ناک ہے جہاں ایس او پیز اور لاک ڈاؤن پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔