بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے ریکوڈک پراجیکٹ کیس میں پاکستان پر عائد چھ ارب ڈالرز جرمانے پر مستقل حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔
سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے قائم بین الاقوامی عدالت ریکوڈک معاملے کے حتمی فیصلے کے لیے پاکستان کی اپیل پر آئندہ برس مئی سے سماعت کرے گی۔
اس سے قبل جولائی 2019 میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کی لیزنگ منسوخ کیے جانے پر ثالثی عدالت نے پاکستان کو آسٹریلیا اور چِلی کی کمپنیوں کو چھ ارب ڈالرز جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
پاکستان کو کہا گیا تھا کہ وہ مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو چار ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کے علاوہ ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم بھی ادا کرے۔
حکومتی حلقے معاشی مشکلات کے باعث حکم امتناعی کے اس فیصلے کو پاکستان کے حق میں ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتِ حال کے تناظر میں عالمی ثالثی عدالت کا مستقل حکمِ امتناع پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہے۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ عالمی ٹربیونل کا یہ فیصلہ عارضی رعایت ہے جو ملک کی حالیہ معاشی صورتِ حال میں بہت خوش آئند ہے۔
واضح رہے کہ عالمی ثالثی عدالت کی طرف سے چھ ارب ڈالر جرمانے کی رقم پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے بیل آؤٹ پیکج کے مساوی ہے۔
اٹارنی جنرل آفس کا کہنا تھا کہ 2019 میں ہی پاکستان نے چھ ارب ڈالرز جرمانہ کالعدم قرار کرانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی تھی اور حالیہ حکمِ امتناع سے جرمانے کی ادائیگی کے سلسلے میں ملک کو مئی 2021 تک کا ریلیف حاصل ہو گیا ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق ریکوڈک معاملے پر ثالثی عدالت اب حتمی سماعت مئی 2021 میں کرے گی۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ ملک کے لیے خوش آئند ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے اس کیس کی بنیاد ٹھیک نہیں رکھی تھی اور سپریم کورٹ کی جانب سے معاہدے کی منسوخی کے حکم نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عارضی حکمِ امتناعی ہے جس پر آئندہ سال پاکستان کی اپیل کی سماعت کے بعد حتمی فیصلہ سامنے آئے گا۔
اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ریکوڈک کی نئی جائزہ رپورٹ کے ذریعے فزیبلٹی، مائننگ اور واٹر اسٹڈی کرائے تاکہ اس حوالے سے مبالغہ آرائی پر مبنی رائے کو ثالثی عدالت میں غلط ثابت کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ بات چیت جاری رکھتے ہوئے ثالثی عدالت میں شواہد پر مبنی اپنا بھرپور مؤقف پیش کیا جائے تو 70 فی صد سے زائد امکانات ہیں کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ پاکستان کے حق میں ہو گا۔
یاد رہے کہ 2011 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف کمپنی نے عالمی ٹربیونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان کے خلاف 16 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایسے فیصلے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ؟
اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل عبدالعلیم کہتے ہیں کہ اس قسم کے اختلافات کو باہمی بات چیت سے حل کیا جانا چاہیے نہ کہ عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کی سطح پر اس قسم کے فیصلے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی میں رکاوٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کیس میں پاکستان پر عائد کردہ ہرجانے کی رقم غیر مناسب حد تک زیادہ تھی۔
عبدالعلیم کہتے ہیں کہ معاملے کو دیکھنے سے اگرچہ لگتا ہے کہ کمپنی نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دی گئی رعایت کا غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم حکومت کو معاملے کو عالمی ٹریبونل کی حد تک نہیں لے جانا چاہیے تھا۔
'معاہدہ حکومت نے نہیں، سپریم کورٹ نے منسوخ کیا'
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ معاہدے کو حکومت نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے منسوخ کیا۔ اس کے مضمرات و نقصانات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کو پالیسی اور حکومتی انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اس سے نظام حکومت چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔
اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں ریکوڈک کے حوالے سے سپریم کورٹ معاملے میں مداخلت نہ کرتی تو حالات مختلف ہوتے۔
پاکستان کی حکومت نے ریکوڈک کیس سے متعلق عالمی ٹربیونل کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
عالمی ٹربیونل میں ریکوڈک کیس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف آنے پر وزیرِ اعظم عمران خان نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمشن بنانے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ عالمی ٹربیونل کے فیصلے میں ملک کو جرمانہ کیوں ہوا اور اس کے ذمہ دار کون ہیں۔
پاکستان کو ثالثی عدالت سے حکم امتناع ملنے پر چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ ٹربیونل کا ریکوڈیک کیس میں پاکستان کے حق میں فیصلہ بڑا ریلیف ہے۔ وزیرِ اعظم نے بلوچستان حکومت کو کان کنی کے فروغ کے لیے ہدایات بھی دی ہیں۔
ان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کان کنی کی ترقی اور منظم انداز میں امور کی انجام دہی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ریکوڈک منصوبہ کا تاریخی پس منظر
ریکوڈک بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب 'ریت کا ٹیلہ' ہے۔ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ایک قصبے کا نام ہے جہاں حکام کے مطابق اربوں ڈالرز کی قیمتی دھاتیں دریافت ہو چکی ہیں۔
ریکوڈک کو دنیا میں قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے اور اندازوں کے مطابق ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت کئی ارب ڈالرز سے زائد ہے۔
ٹیتھیان کمپنی کو 1993 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے 2011 میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو دیا جانے والا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔
ٹتھیان کمپنی نے 2012 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان سے 16 ارب ڈالرز ہرجانہ وصول کرنے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔