|
اسلام آباد -- سال 2024 میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے کیے جاتے رہے۔ ماہرین کے مطابق معیشت میں بہتری تو آئی، لیکن اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام آیا تو آئندہ کچھ عرصے میں معاشی بہتری کے اثرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سال 2024 پاکستان کی معیشت کے لیے کیسا رہا؟ اور ماہرین کے مطابق آنے والے وقت میں ملکی معیشت کس سمت میں جائے گی؟
پاکستان کو ملنے والے قرضے
سال 2024 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو سات ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کیا جس نے معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔ اس قرضے کی منظوری کے بعد پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور معیشت میں بہتری آئی۔
اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے دوران حکومتِ پاکستان کو ملنے والے بیرونی قرضوں اور گرانٹس کی تفصیلات جاری کی تھیں جن کے مطابق جولائی سے نومبر تک پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے تاہم اس میں تیزی آنے کا امکان ہے۔
جولائی سے نومبر تک تین ارب 57 کروڑ ڈالر کی مجموعی بیرونی فنڈنگ ہوئی جس میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط شامل ہے۔
گزشتہ سال کے مقابلے بیرونی فنڈز میں 43 فی صد کمی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانچ ماہ میں آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں، ممالک سے 2.57 ارب ڈالر ملے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 76 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، عالمی بینک نے 30 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا رعایتی قرضہ دیا۔
اس عرصے کے دوران چین نے نو کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور فرانس نے آٹھ کروڑ 90 لاکھ ڈالر فنڈز دیے۔ امریکہ کی جانب سے تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ کی گئی، چین نے 20 کروڑ ڈالر کا قرضہ بھی رول اوور کیا۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال 24 ارب ڈالر کی مجموعی بیرونی مالی معاونت کا تخمینہ ہے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کا 12 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور ہونے کا امکان ہے۔ سعودی عرب سے 1.2 ارب ڈالر کی ادھار تیل کی سہولت بھی ملنے کا امکان ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے سال 2024 کیسا رہا؟
ماہرین کے مطابق مہنگائی (افراطِ زر) کنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مئی 2023 میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 38 فی صد تھی جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔
سال 2023 میں گزشتہ سال کے مقابلے افراط زرِ میں 10.89 فی صد کا اضافہ ہوا اور 2023 میں اوسط مہنگائی 30.77 فی صد رہی۔ سال 2024 کے آغاز پر افراطِ زر میں کمی دیکھی جانے لگی۔ پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں افراطِ زر 28.3 فی صد کی سطح پر آ گیا۔
حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی اور نومبر 2024 میں افراطِ زر کی شرح چار فی صد کی سطح پر آ گئی۔
قیمتوں میں اضافے کی شرح جو کہ مئی 2023 میں 38 فی صد تھی، اب یہ شرح کم ہو کر چار فی صد رہ گئی ہے۔ اس کمی نے عوام کو کچھ حد تک ریلیف فراہم کیا اور کاروباری ماحول کو بہتر بنایا۔
اسٹاک مارکیٹ بلند ترین سطح پر
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور اس بارے میں کوئی اسے مصنوعی تیزی اور کوئی اسے سٹے بازی کہہ رہا ہے۔ جب کہ حکومت اسے معیشت میں بہتری کا اشارہ قرار دے رہی ہے۔
پی ایس ایکس کے مطابق سال 2024 کے آغاز پر اسٹاک ایکسچینج میں ہنڈرڈ انڈیکس 64 ہزار 661 پوائٹنس پر تھا جو کہ دسمبر میں بڑھ کر ایک لاکھ 18 ہزار پوائنٹس کی حد کو چھو گیا۔ اسی طرح تقریباً ایک سال سے کچھ کم عرصے میں انڈیکس میں 50 ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
اس طرح مارکیٹ میں موجود کمپنیز کی مجموعی مالیت 14 ہزار 855 ارب روپے ہو چکی ہے جو کہ ڈالر میں 52.45 ارب ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیز کی مالیت سال 2013 میں 100 ارب ڈالر ہوئی تھی جس کے بعد مارکیٹ انڈیکس میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے سے مارکیٹ کی مجموعی مالیت کم ہو گئی تھی اور سب سے زیادہ کمی ڈالر میں ہوئی تھی۔
ماہرین کے مطابق اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پاکستان معیشت میں میکرو اکنامک بہتری، حکومت کا سیاسی طور پر مضبوط ہونا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مارکیٹ میں دلچسپی شامل ہے۔
روپے کی قدر میں استحکام
سال 2024 میں روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کے حوالے سے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا۔
سال 2023 میں ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن رواں سال ڈالر 275 سے 280 روپے کے درمیان رہا جس کی وجہ سے کاروباری افراد کو اعتماد حاصل ہوا۔ اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
ترسیلات زر میں اضافہ
سال 2024 میں ملک کی ترسیلاتِ زر میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے گزشتہ برس کی نسبت زیادہ رقوم پاکستان بھیجیں، اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے گھر بھیجی گئی نقد رقم 34 فی صد اضافے سے 14.8 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ ترسیلاتِ زر گزشتہ سال کے 30 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس سال 35 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی سرمائے میں اضافہ ہو رہا ہے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھول رہے ہیں اور اس میں رقوم منتقل کر رہے ہیں۔ جنوری 2024 میں یہ رقم 7.1 ارب ڈالر تھی جو کہ نومبر تک بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔
اگرچہ ملکی معیشت میں بہتری آئی، لیکن کچھ چیلنجز ابھی بھی موجود رہے۔ سیاسی عدم استحکام اور سیکیورٹی کے مسائل نے معیشت پر منفی اثرات ڈالے۔ اس کے علاوہ عوام کو مہنگائی میں کمی کے فوائد مکمل طور پر نہیں مل سکے اور خریداری کی طاقت میں کمی رہی۔
شرح نمو میں بہتری کی توقع
سال 2024 کے اختتام پر معیشت میں بہتری کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت پیش گوئیاں کیں۔ ماہرین کے مطابق اگر سیاسی استحکام برقرار رہا اور اصلاحات جاری رہیں تو رواں مالی سال کے دوران معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔
آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو رواں مالی سال میں 3.2 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ جب کہ آئندہ مالی سال میں یہ چار فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
ایف بی آر کی کارکردگی
کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی میں ٹیکسز کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور رواں سال پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مشکلات کا شکار رہا۔
رواں مالی سال میں حکومت نے ٹیکس وصولی کا بڑا ہدف طے کیا ہے، حکومت نے رواں مالی سال میں ایف بی آر کو وفاقی بجٹ کے لیے 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال سے 40 فی صد زائد ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 386 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے کیوں کہ محصولات کی وصولی چھ ہزار ارب روپے کے مطلوبہ ہدف کے مقابلے میں 5623 ارب روپے رہی۔
معیشت کو درپیش چیلنجز
پاکستانی معیشت گزشتہ کئی برسوں سے مشکل صورتِ حال سے گزر رہی ہے اور 2024 میں اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ تاہم ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور سرحدوں پر سیکیورٹی کی صورتِ حال ابھی بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوششیں اور عوام کو ٹیکس کی ادائیگی پر مائل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کی طرف سے مختلف شعبوں پر ٹیکسیشن زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر ایک عرصے تک پاکستان میں تیزی سے بڑھنے والا سیکٹر تھا لیکن گزشتہ سال کی بھاری ٹیکسیشن کی وجہ سے یہ سیکٹر اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔
سال 2024 میں نجکاری کے حوالے سے بھی حکومتی کوششیں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکیں اور پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے کسی بھی ادارے کی نجکاری نہیں ہو سکی۔
حکومت نے جو قیمت مقرر کی اس کے بعد صرف ایک ادارے کی طرف سے 10 ارب روپے کی بولی دی گئی جس کے بعد حکومت نے بولی کا عمل منسوخ کر دیا تھا۔
تاہم پی آئی اے کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد جنوری کے شروع میں یورپ کی پروازیں شروع ہو رہی ہیں اور اس کے بعد برطانیہ کی پروازوں کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف یورپ اور برطانیہ سے پی آئی اے کے ذریعے حکومت کو 84 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوتا تھا اور گزشتہ دورِ حکومت میں یہ سیکٹرز ختم ہونے سے پی آئی اے کے نقصانات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
مالی سال 2024 سے 2029 تک حکومت کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئر لائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹیلٹی سٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں غربت میں اضافہ بھی ہوا ہے اور عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق غربت میں سات فی صد اضافہ ہوا ہے جس سے مزید لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔
معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ معیشت میں بہتری تو آئی ہے جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ بھی بہتر ہوئی ہے۔ پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے جو سب کے سب مثبت انڈیکٹرز ہیں۔ حکومت نے ایک عرصے سے ڈالر ریٹ کو کنٹرول کر رکھا ہے اور ملکی معیشت درست ٹریک پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ سال میں جو کارکردگی دکھائی ہے اس کے اثرات آئندہ کچھ عرصے میں نظر آ سکیں گے جب شرح نمو بہتر ہونے کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار میں اضافہ ہو گا اور ایسے میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔
'عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ نہیں ہوا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کا پلان لیا جس کے بعد معیشت بہتر ہوئی ہے لیکن اگر میں معیشت کے بارے میں ایک لفظ کہوں تو وہ یہ ہو گا کہ 'معیشت سلو ڈاؤن' ہو گئی ہے۔
اُن کے بقول اس وقت حکومتی اعداد وشمار اپنی جگہ پر لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔
مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گروتھ نہیں ہو رہی، اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول اور عام ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی نہیں بڑھ رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں مہنگائی 38 فی صد تھی جو اب 4 فی صد پر آ گئی ہے۔ اس وقت ترقی کہ شرح آخری سہ ماہی میں صرف 0.92 فی صد تھی۔ پاکستان کی آبادی بڑھنے کی شرح 2.55 فی صد ہے۔ ایسے میں ہم آبادی کے بڑھاؤ کے حساب سے بھی ترقی نہیں کر رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ گروتھ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور غربت میں کمی کے لیے ناکافی ہے۔
مہتاب حیدر کے بقول اب ہم نے 2025 میں گروتھ کی طرف جانا ہے۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ایسی متوازی شرح نمو حاصل کی جائے کہ ہم کسی عدم توازن کا شکار نہ ہوں اور معیشت میں لگاتار بڑھوتری آئے۔
مہتاب حیدر کے بقول آئندہ سال آئی ایم ایف کے پروگرام کو برقرار رکھنا ضروری ہے، جو بھی آئی ایم ایف کی سفارشات ہیں ان پر لازمی عمل کرے۔ اگر ہمارا آئی ایم ایف کا پروگرام ڈی ریل ہوا تو سب کے لیے مشکلات بہت بڑھ جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت رائٹ سائزنگ کا کہہ رہی اور مختلف اداروں کو بند کرنا چاہ رہی ہے، لیکن ایسے میں جو لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں ان کے لیے کیا کیا جائے گا۔ پینشن کم کرنے کے لیے کیا کیا جائے گا، ٹیکس معاملات میں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
فورم