ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے مریضوں کا علاج کرنے والے وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا کہنا ہے کہ سال 2010ء کے دوران ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے آنے والے افراد کی تعداد میں پانچ سے دس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو اس بیماری کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال ہیپاٹائٹس کے ساڑھے تئیس ہزار ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے ساڑھے چار ہزار میں بیماری کی تصدیق ہوئی۔
اس شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پمز کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت ہسپتال کے شعبہ امراض معدہ میں داخل اسی فیصد مریض ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس بی اور سی کی کسی نہ کسی پیچیدگی سے متاثر ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ہسپتال میں روزانہ ہیپاٹائٹس کے تقریباً نوے ٹیسٹ ہو رہے ہیں جن میں سے پندرہ میں سی اور تین میں ہیپاٹائٹس بی کے وائرس کی تصدیق ہو رہی ہے۔
طبی ماہرین کے جائزے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے سات فیصد ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام میں مبتلا ہے جس میں زیادہ تر افراد ہیپاٹاتٹس سی کے مریض ہیں۔
ڈاکٹر وسیم کا کہنا تھا کہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ یقیناً ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتا ہے لیکن ان کے مطابق یہ اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ مرض کی سنگینی کے بارے میں اب شعور بڑھ رہا ہے اور پہلے سے زیادہ لوگ اپنے علاج کے لیے ہسپتال کا رخ کر رہے ہیں قبل اس کے کہ ہیپاٹائٹس ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔
طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس اے اور ای جو عموماً گندا پانی پینے سے لاحق ہوتے ہیں نسبتاً کم خطرناک ہیں۔ جب کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی جو غیر محفوظ انتقال خون، ایک ہی سرنج کے زیادہ مرتبہ استعمال، حجام کے بلیڈ تبدیل نہ کرنے، جنسی بے راہ روی اور عطائیوں کے ہاتھوں گندے آلات کے استعمال سے پھیلتے ہیں اور اگر بروقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ جگر کے کینسر سمیت کئی پیچیدگیوں کا سبب بن کر جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر اگرچہ ہیپاٹائٹس کی روک تھام کا پروگرام جاری ہے لیکن اس پر قابو پانے کے لیے سب سے ضروری عوام میں شعور پیدا کرنا ہے کیونکہ احتیاط ہی اس مرض سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔