حکام کے مطابق شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے اندراج کی جانچ پڑتال کے بعد اب یہ تعداد تقریباً پانچ لاکھ 45 ہزار ہو گئی ہے جو کہ پہلے رجسٹرڈ اعداد و شمار کا نصف بنتی ہے۔
گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع ہونے کے بعد وہاں سے لاکھوں افراد نقل مکانی کر کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں پہنچے تھے اور ان کی آمد کے وقت مختلف جگہوں پر رجسٹریشن پوائنٹس بھی بنائے گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے تک یہ تعداد دس لاکھ تک بتائی جاتی رہی لیکن عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ اندراج کے وقت ہونے والی غلطیوں اور ایک ہی شخص کے دو یا تین بار اندراج سے یہ تعداد اس قدر زیادہ ہوئی لیکن کوائف جمع کرنے والے قومی ادارے 'نادرا' سے جانچ پڑتال کے بعد ہی اصل تعداد بتائی جا سکے گی۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے اور انھیں رمضان اور عید پیکج بھی دیا گیا جس میں نقد رقم کے علاوہ راشن بھی شامل ہے۔
لیکن اس کے باوجود بے گھر ہونے والے افراد سرکاری امداد کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل بویا سے نقل مکانی کر کے آنے والے محمد یونس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ پہلے بنوں اور پھر چارسدہ پہنچے اور ان کے بقول ان تک سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہی پہنچی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی ساری توجہ بنوں پر ہے جب کہ دیگر کئی علاقوں میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
"شروع میں جب ہم آئے تھے تو اس وقت (امداد) ملی تھی پھر کسی نے نہیں پوچھا کوئی تعاون نہیں کیا، یہاں پر ایک دو نجی تنظیمیں ہیں انھوں نے تعاون کیا ہے ہمارے ساتھ۔ اب عید بھی آگئی ہے تو بس بہت مشکل سے تھوڑا بہت بچوں کے لیے کپڑے خریدے ہیں بس کیونکہ پیسے ہی نہیں ہیں اور بھی بہت سے ضرورتیں ہیں۔"
حکومت نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر بنوں میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے لیکن نقل مکانی کرکے آنے والوں میں سے بیشتر اس کیمپ کی بجائے مختلف شہروں میں اپنے عزیزوں یا پھر کرائے پر جگہ لے کر رہ رہے ہیں۔
ہمایوں خان بھی اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ سرکاری امداد پر تو قدرے مطمئین ہیں لیکن عید کے تہوار کی آمد پر کچھ افسردہ دکھائی دیے۔
"ہمیں 35 ہزار روپے بھیجے حکومت نے کچھ گزارا ہوگیا، لیکن اب اپنے گھر سے دور عید کی وہ بات تو نہیں ہے نا، بچوں کے لیے چیزیں خریدی ہیں عید کے لیے مٹھائی وغیرہ بھی لی ہے، بس بچوں کو تو نہیں بتا سکتے نا کہ کیا مشکل ہے۔"
خیبر پختونخواہ کے گورنر یہ کہہ چکے ہیں فوجی آپریشن مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں میں کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا جس کے بعد ان بے گھروں کی ان کے گھروں کو باعزت واپسی ممکن بنائی جائے گی۔