اسلام آباد —
پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ اداروں میں ممکنہ ’’چپکلش اور تناؤ‘‘ دور کرنے کے لیے ہر ریاستی ادارے کو آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر کام کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز سے پرہیز کرنا ہوگا۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے ان کی جماعت کے سربراہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں ان کا موقف بھر پور انداز میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے سابق کرکٹر کے جواب کا متن بتانے سے معذرت کی تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’آئین میں ہر ادارے کے کردار کا تعین ہے اگر وہ اس دائرے میں کام کریں گے تو چپکلش نہیں ہوگی لیکن جب آپ آئینی کردار سے تجاوز کریں گے تو یقیناً ایسا ہوگا۔ اب جو الیکشن کمیشنر نے مستعفی ہونے کی وجہ بتائی ہے اس سے تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے سمجھا کہ عدالت عظمیٰ نے ان کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے برعکس حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر صدارتی انتخابات اعلان کردہ تاریخ سے ایک ہفتے پہلے کروانے کا حکم صادر کیا تھا۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف نے بھی چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرہیم کے استعفے کی وجہ انتخابی عمل کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کو گردانا۔ ’’انتخابات تو بڑے حد تک شفاف طریقے سے ہوئے لیکن غالباً چیف الیکشن کمشنر اس کو اپنے مزاج کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ اب مزید یہاں رہ کر میں ایسی کوئی خدمت سر انجام نہیں دے سکتے۔‘‘
سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ روز عمران خان کو ایک نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ عدالت کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز بیانات دینے کی وضاحت کریں۔ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار نے ایک چٹھی کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے عام اور صدارتی انتخابات سے متعلق عدالت کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے عدلیہ کو رسوا کرنے کی کوشش کی تھی۔
تاہم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے عہدیداروں کو حیرت ہے کہ صرف تحریک انصاف کے خلاف یہ نوٹس کیوں جاری کیا گیا جبکہ حکمران مسلم لیگ نواز کے علاوہ تمام جماعتوں نے بھی سپریم کورٹ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے اسے یک طرفہ فیصلہ قرار دیا تھا کیونکہ عدالت نے دیگر ’’متعلقہ‘‘ جماعتوں کا موقف نہیں سنا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس سے پہلے سابق وزرائے اعظم اور حکومت میں شامل دیگر عہدیداروں کے علاوہ سرکاری حکام اور صحافیوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید نواز گنڈاپور توہین عدالت کی کارروائیوں سے متعلق کہتے ہیں۔
’’توہین عدالت کا نوٹس ہوتا ہے عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے، قانون کی بالادستی کے لیے۔ اگر یہ اس کے لیے ہوگا تو اس کا اثر ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ کسی چیز کے لیے ہوگا تو لوگ اسے اہمیت نہیں دیں گے۔‘‘
عمران خان جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گےکہ مبینہ توہین آمیز بیانات کی روشنی میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نا کی جائے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے ان کی جماعت کے سربراہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں ان کا موقف بھر پور انداز میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے سابق کرکٹر کے جواب کا متن بتانے سے معذرت کی تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’آئین میں ہر ادارے کے کردار کا تعین ہے اگر وہ اس دائرے میں کام کریں گے تو چپکلش نہیں ہوگی لیکن جب آپ آئینی کردار سے تجاوز کریں گے تو یقیناً ایسا ہوگا۔ اب جو الیکشن کمیشنر نے مستعفی ہونے کی وجہ بتائی ہے اس سے تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے سمجھا کہ عدالت عظمیٰ نے ان کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے برعکس حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر صدارتی انتخابات اعلان کردہ تاریخ سے ایک ہفتے پہلے کروانے کا حکم صادر کیا تھا۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف نے بھی چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرہیم کے استعفے کی وجہ انتخابی عمل کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کو گردانا۔ ’’انتخابات تو بڑے حد تک شفاف طریقے سے ہوئے لیکن غالباً چیف الیکشن کمشنر اس کو اپنے مزاج کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ اب مزید یہاں رہ کر میں ایسی کوئی خدمت سر انجام نہیں دے سکتے۔‘‘
سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ روز عمران خان کو ایک نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ عدالت کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز بیانات دینے کی وضاحت کریں۔ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار نے ایک چٹھی کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے عام اور صدارتی انتخابات سے متعلق عدالت کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے عدلیہ کو رسوا کرنے کی کوشش کی تھی۔
تاہم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے عہدیداروں کو حیرت ہے کہ صرف تحریک انصاف کے خلاف یہ نوٹس کیوں جاری کیا گیا جبکہ حکمران مسلم لیگ نواز کے علاوہ تمام جماعتوں نے بھی سپریم کورٹ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے اسے یک طرفہ فیصلہ قرار دیا تھا کیونکہ عدالت نے دیگر ’’متعلقہ‘‘ جماعتوں کا موقف نہیں سنا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس سے پہلے سابق وزرائے اعظم اور حکومت میں شامل دیگر عہدیداروں کے علاوہ سرکاری حکام اور صحافیوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید نواز گنڈاپور توہین عدالت کی کارروائیوں سے متعلق کہتے ہیں۔
’’توہین عدالت کا نوٹس ہوتا ہے عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے، قانون کی بالادستی کے لیے۔ اگر یہ اس کے لیے ہوگا تو اس کا اثر ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ کسی چیز کے لیے ہوگا تو لوگ اسے اہمیت نہیں دیں گے۔‘‘
عمران خان جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گےکہ مبینہ توہین آمیز بیانات کی روشنی میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نا کی جائے۔