برطانیہ کی تاریخ کے سب سے پرانے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے، جس کے فریق پاکستان، بھارت اور سابق ریاست حیدر آباد دکن کے حکمران کے ورثا تھے۔
برطانیہ کی عدالتوں میں یہ دیوانی مقدمہ جس کی مالیت 35 ملین پاؤنڈ ہے 70 سال سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا ہے۔
اس دیوانی تنازع کا آغاز 1948 میں اس وقت ہوا تھا جب متحدہ ہندوستان کی بھارت اور پاکستان میں تقسیم کے بعد بھارت نے ریاست حیدرآباد دکن کو پولیس ایکشن کر کے ملک میں ضم کر لیا تھا۔ اس دوران ریاست کے آخری حکمران نظام دکن نے ایک ملین پاؤنڈ لندن میں پاکستان ہائی کمشن کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے۔
ریاست کا مسلمان حکمران خاندان بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواہش مند تھا جب کہ ریاست کی آبادی کی واضح اکثریت ہندو تھی۔
70 سال قبل پاکستان ہائی کمشن کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک ملین ڈالر کی رقم پر ہر سال منافع ملنے کے باعث مسلسل اضافہ ہوتا رہا جو اب بڑھ کر 35 ملین پاؤنڈ ہو چکی ہے۔
پاکستان یہ کہتے ہوئے اس رقم پر اپنی ملکیت کا دعویدار ہے کہ یہ ان ہتھیاروں کی قیمت ہے جو پاکستان نے نظام حیدر آباد کو بھارتی فوج کے خلاف مقابلے کے لیے فراہم کیے تھے۔ ادھر، ریاست حیدر آباد کے آخری فرما روا کے وارثوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رقم اس مقصد کے تحت بیرون ملک منتقل کی گئی تھی، تاکہ خاندان کے لیے محفوظ رہے۔
یہ مقدمہ 1954 میں اس وقت لندن کے ہائی کورٹ میں پہنچا جب حیدرآباد کے شاہی خاندان نے بینک اور پاکستان کے ہائی کمشنر کو فریق بناتے ہوئے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
سن 1957 میں پاکستان نے یہ مقدمہ جیت لیا۔ تاہم، رقم کو 60 سال کے لیے منجمد کر دیا گیا۔
2013 میں پاکستان نے بینک سے رقم کے حصول کے لیے ایک بار پھر عدالت سے رجوع کیا۔ لیکن اس دوران نظام دکن کے دو پوتوں نے بھی اپنا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس دوران بھارت کی جانب سے بھی دعویٰ سامنے آ گیا۔
140 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں بدھ کے روز لندن کی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ نظام دکن ہفتم کے وارث اور بھارت اس رقم کے حق دار ہیں۔
نظام دکن کے پوتے مکرم جاہ اور ان کے چھوٹے بھائی نے پچھلے سال نئی دہلی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ مقدمہ جیتنے کی صورت میں رقم کس طرح تقسیم کی جائے گی۔