پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں ابھی تک متعدد قیدی موجود ہیں جو کبھی تو راستا بھول کر اور کبھی کسی اور وجہ سے پڑوسی ملک گئے اور قید کرلیے گئے، جِن میں سمندرسے پکڑے گئے ماہی گیر بھی شامل ہیں۔
دہلی کی جواہر لال یونیوسٹی کے پروفیسر کمل مِترا چنائے کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کےقوانین اتنے سخت ہیں کہ ایسے قیدیوں کو رہائی ملنا مشکل ہوجاتی ہے۔ اُنھوں نے یہ بات بدھ کو ’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کی۔
پروفیسرمِترا نے متعلقہ قوانین کی طرف دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا کہ عام ملکی قوانین ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کا قانون، بغیر کسی جائز سبب کے پکڑے جانے والے افراد کو پریشانی سے نجات نہیں ملتی۔ اُنھوں نے کہا کہ غیر ملکیوں کے حق میں بولنے اور مقدمہ لڑنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔
ماہی گیروں کی مثال دیتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ ’سر کریک‘ کا علاقہ ہو یا کوئی اور، سمندر میں سرحدوں کی پہچان مشکل ہوتی ہے، پھربھی مچھیروں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ایک سے چھ ماہ تک جیل میں رکھ کر انسانی اورخیرسگالی کی بنیادوں پر رہا کردیا جاتا ہے۔
اُن کے الفاظ میں ’ حکومتوں کی سطح پر دوسرے ملک کو دشمن سمجھنا عام سی بات ہے۔ جب تک یہ سوچ باقی رہے گی بہتری آنا مشکل ہوگی۔۔۔پھر ریاست کو بے تحاشہ اختیارات حاصل ہیں، اور بہتری کی کوئی صورت حاصل ہونا آسان نہیں۔ البتہ، پہلے کے رویوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔‘
ادھر، پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک ممتاز کارکن، پروفیسر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنے کے بعد قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
پروفیسر مہدی حسن نے بتایا کہ پچھلے کئی سالوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سمندر سے ماہی گیروں کو سرحد عبور کرنے کے الزام میں پکڑ لیا جاتا ہے اور بغیر سزا دیے کچھ عرصے تک قید رکھنے کے بعد، خیرسگالی کے طور پر یا باہمی تبادلے کی بنیادپر رہا کیا جاتا ہے۔اُن کے بقول، ’پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہورہا ہے‘۔
اُنھوں نے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نےعید پر ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کافی عرصے سے جیل میں ہیں اورجِن پر کوئی سنجیدہ الزامات عائد نہیں ہیں، اُن میں بھارت کے کچھ قیدی بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے الفاظ میں، ’ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اور حالات یقیناً بہتر ہورہے ہیں‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: