انجم ہیرالڈ گل
امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کی رفتار، دائرہ کار، اوراس کی سمت کا تعین پاکستان اور بھارت کو ہی کرنا ہے۔ دو ہمسایہ جوہری طاقتوں کے درمیان عشروں پر انے اس تنارع پر تین بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور حالیہ کچھ عرصے سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس پر کئی سابق امریکی معاون وزرائے خارجہ اور جنوبی ایشیائی خطے کے أمور کے متعدد ماہرین اپنی تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔
امریکی دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ امریکہ، بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو آگے بڑھانے کے ہر مثبت اقدام کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ رأست مذاكرات کا حامی ہے۔ تاہم اِس ڈائیلاگ کی رفتار اور دائرہ کار کا تعین دونوں ملک خود کریں گے۔
عہدیدار نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی کے لیے، دونوں ملکوں کو براہ رأست بات چیت کرنی چاہیے، کیونکہ دونوں ملکوں کو عملی تعاون سے ہی فائدہ پہنچے گا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ خطے میں قریبی معاشی تعلقات کی سمت پیش رفت سے، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، افراطِ زر میں کمی آئے گی۔ توانائی کی فراہمی میں اضافہ ہو گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستحکم تعلقات، دونوں ملکوں اور خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہیں۔
واشنگٹن میں، مختلف تھنک ٹینکوں اور تنظیموں کے ایک حالیہ اجلاس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو موضوع بنایا گیا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
امریکہ کے ایک سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی أمور، کارل اِنڈر فرتھ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر گذشتہ سات سال کے دوران سب سے زیادہ تشدد دیکھے میں آ رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے حالات بھی خراب تر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشیدگی اور بگڑتے ہوئے حالات دونوں ملکوں کو ایک بڑے بحران کی سمت دھکیل سکتے ہیں۔
سابق امریکی عہدے دار کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب واشنگٹن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ میں عملہ پورا نہیں ہے۔ اور اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے عہدوں پر ماہرین موجود نہیں ہیں۔
کارل اِنڈر فرتھ نے کارگل بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دفترِ خارجہ کے عہدے داروں نے دونوں ملکوں کو اس صورت حال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے فکر ہے کہ اگر جنوبی ایشیائی خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو واشنگٹن کوئی مدد نہیں کرپائے گا۔
امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی أمور، رابن رافیل کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ، ایک پرانا مسئلہ ہے اور یہ صورت حال گاہے بگاہے پیش آتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فکر کی بات یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت ایک قوم پرست حکومت ہے۔ اور کشیدگی میں اضافے کے بعد پاکستان کی جانب سے بھی ایسا ہی ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے سفارت کار حالات معمول پر لانے کے لیے دونوں ملکوں سے رابطے میں ہوں گے اور ان پر کشیدگی اور اشتعال انگیزی میں کمی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اشتعال کے جواب میں تحمل سے کا م لینا چاہیے اور ان مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے جو کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔