اسلام آباد —
کشمیر کو منقسم کرنے والی حد بندی لائن پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے واقعات کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن کاروباری حلقوں کا اصرار ہے کہ تناؤ کی اس صورت حال میں تجارت کا عمل نہیں رکنا چاہیئے اور اُن کے بقول اسے فروغ دے کر دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔
پاکستان انڈیا بزنس کونسل کے چیئرمین نور محمد قصوری کا کہنا ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی تاجر برداری اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ سیاسی معاملات اور کشیدگی کو تجارتی شعبے پر اثر انداز نہ ہونے دیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کئی ملکوں کے آپس میں تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود ان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بدستور بطریق احسن جاری ہیں۔
’’چین کو دیکھ لیں بھارت کے ساتھ اس کے اختلافات ہیں لیکن ان دونوں کے تجارتی تعلقات معمول کی بجائے بہترین ماحول میں جاری ہیں تو ہمیں بھی جو تنازعات ہیں اس پر سیاسی سطح پر بات چیت کرنی چاہیے اور تجارتی عمل کو بہتر بنانا چاہیے۔‘‘
نور محمد قصوری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے لیے تجارت کے فروغ کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ان ہی روابط کو حکومتوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا اب حالات ماضی کی نسبت بہت مختلف ہیں اور کشیدگی کے مزید بڑھنے کے امکانات نہیں ہیں۔
’’میرا نہیں خیال یہ کوئی انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کوئی جنگ ہو جائے گی کیونکہ 1965 میں اور 1971ء کے مقابلے میں اب حالات بہت مختلف ہیں۔۔۔دونوں ملکوں کے درمیان عسکری سطح پر ’ہاٹ لائن‘ رابطوں کے علاوہ سول قیادت کے درمیان بھی بیک چینل ڈپلومیسی کے مواقع ہیں۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے فوجیوں نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے پانچ بھارتی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا، پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔ بعد ازاں دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔
پاکستان کی نو منتخب حکومت ان واقعات پر بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
وزیر مملکت برائے نجکاری خرم دستگیر کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے میں تجارت بہت اہم کردار کر سکتی ہے بھارت جیسی بڑی معیشت سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی سیاسی بات نہیں بلکہ خالصتاً معاشی معاملہ ہے۔
’’ہمیں احساس ہے کہ جب تک ہمارے جو سیاسی اختلافات ہیں ان پر پیش رفت نہیں ہوتی تو تجارت کی بات ہمیشہ یرغمال رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان نہ صرف تجارت کی بات کرے ، ہم سے سیاسی معاملات پر بھی بات کرتے خاص طور پر وہ معاملات جو آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ رواں ماہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کی طرف سے فائر بندی کی خلاف ورزی کے واقعات میں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کے باوجود پاکستان نے کشیدگی کو مزید ہوا دینے کی بجائے معاملات بات چیت کے ذریعے حل اور ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی جسے ان کےبقول بھارت نے مسترد کر دیا۔
’’پاکستان نے اس دوران یہی موقف رکھا کہ 2003ء کا سیز فائر معاہدہ اعتماد سازی کا ایک اہم حصہ ہے اس کا احترام ضروری ہے اگر ضرورت ہو تو ملٹری کے ڈی جی ایم اوز کے رابطے کا جو طریقہ کار ہے اس کو ہم اپ گریڈ کرکے اس میکنزم کو ہم مزید مضبوط کر سکتے ہیں جس میں دفتر خارجہ کے حکام بھی شامل ہوں، لیکن بھارت نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا۔‘‘
جمعہ کو انھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کے تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کو بوسیدہ لفاظی سے ہٹ کر زمینی حقائق کی تہہ تک جانا ہوگا اور ان کے بقول پاکستان کے ہاں اس کوشش کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان انڈیا بزنس کونسل کے چیئرمین نور محمد قصوری کا کہنا ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی تاجر برداری اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ سیاسی معاملات اور کشیدگی کو تجارتی شعبے پر اثر انداز نہ ہونے دیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کئی ملکوں کے آپس میں تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود ان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بدستور بطریق احسن جاری ہیں۔
’’چین کو دیکھ لیں بھارت کے ساتھ اس کے اختلافات ہیں لیکن ان دونوں کے تجارتی تعلقات معمول کی بجائے بہترین ماحول میں جاری ہیں تو ہمیں بھی جو تنازعات ہیں اس پر سیاسی سطح پر بات چیت کرنی چاہیے اور تجارتی عمل کو بہتر بنانا چاہیے۔‘‘
نور محمد قصوری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے لیے تجارت کے فروغ کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ان ہی روابط کو حکومتوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا اب حالات ماضی کی نسبت بہت مختلف ہیں اور کشیدگی کے مزید بڑھنے کے امکانات نہیں ہیں۔
’’میرا نہیں خیال یہ کوئی انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کوئی جنگ ہو جائے گی کیونکہ 1965 میں اور 1971ء کے مقابلے میں اب حالات بہت مختلف ہیں۔۔۔دونوں ملکوں کے درمیان عسکری سطح پر ’ہاٹ لائن‘ رابطوں کے علاوہ سول قیادت کے درمیان بھی بیک چینل ڈپلومیسی کے مواقع ہیں۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے فوجیوں نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے پانچ بھارتی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا، پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔ بعد ازاں دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔
پاکستان کی نو منتخب حکومت ان واقعات پر بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
وزیر مملکت برائے نجکاری خرم دستگیر کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے میں تجارت بہت اہم کردار کر سکتی ہے بھارت جیسی بڑی معیشت سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی سیاسی بات نہیں بلکہ خالصتاً معاشی معاملہ ہے۔
’’ہمیں احساس ہے کہ جب تک ہمارے جو سیاسی اختلافات ہیں ان پر پیش رفت نہیں ہوتی تو تجارت کی بات ہمیشہ یرغمال رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان نہ صرف تجارت کی بات کرے ، ہم سے سیاسی معاملات پر بھی بات کرتے خاص طور پر وہ معاملات جو آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ رواں ماہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کی طرف سے فائر بندی کی خلاف ورزی کے واقعات میں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کے باوجود پاکستان نے کشیدگی کو مزید ہوا دینے کی بجائے معاملات بات چیت کے ذریعے حل اور ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی جسے ان کےبقول بھارت نے مسترد کر دیا۔
’’پاکستان نے اس دوران یہی موقف رکھا کہ 2003ء کا سیز فائر معاہدہ اعتماد سازی کا ایک اہم حصہ ہے اس کا احترام ضروری ہے اگر ضرورت ہو تو ملٹری کے ڈی جی ایم اوز کے رابطے کا جو طریقہ کار ہے اس کو ہم اپ گریڈ کرکے اس میکنزم کو ہم مزید مضبوط کر سکتے ہیں جس میں دفتر خارجہ کے حکام بھی شامل ہوں، لیکن بھارت نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا۔‘‘
جمعہ کو انھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کے تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کو بوسیدہ لفاظی سے ہٹ کر زمینی حقائق کی تہہ تک جانا ہوگا اور ان کے بقول پاکستان کے ہاں اس کوشش کا آغاز ہوچکا ہے۔