اسلام آباد —
پاکستان کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے منگل کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
یہ ملاقاتیں برونائی دارالسلام میں جنوب مشرقی ایشائی ملکوں کی تنظیم ’آسیان‘ کے اجلاس کے موقع پر ہوئیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سرتاج عزیز اور جان کیری کے درمیان ملاقات کا محور افغانستان سے 2014ء کے اختتام پر نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاک امریکہ دوطرفہ تعاون تھا۔
بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدتی شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کے آئندہ دور کی ضرورت پر زور دیا۔
ان مذاکرات کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا اعلٰی عہدیداروں کے ورکنگ گروپ کی سطح پر جائزہ لیا جاتا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان وزیر خارجہ جان کیری کے دورے کا منتظر ہے۔
وزیراعظم کے مشیر نے امریکی وزیر خارجہ کو بتایا کہ پاکستان کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برداری سے تعلقات استوار کرنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران دوطرفہ تجارت کے موجودہ پانچ ارب ڈالر کے سالانہ حجم کو 10 ارب ڈالر کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہیں۔
بیان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اقتصادی بحالی کے لیے پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سراہا تاہم اُن کا کہنا تھا کہ معیشت کی بحالی لیے امن و امان کی صورت حال میں بہتری ضروری ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہو سکے۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا اعلٰی سطحی رابطہ تھا۔
اس سے قبل سرتاج عزیز نے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید سے بھی ملاقات کی۔ اُنھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے جامع امن مذاکرات کی دوبارہ شروعات کا جائزہ لیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ سلمان خورشید سے ملاقات میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ دو طرفہ تعاون کو بہتر بنانے کے لیے فوری طور کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز کے بقول پاکستان اور بھارت کے عوام کی خواہش ہے کہ تعاون کو بڑھایا جائے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں اعلٰی عہدیداروں پر مشتمل ’ورکنگ گروپوں‘ کی آئندہ مہینوں میں ملاقاتوں پر اتفاق کے علاوہ، عوامی اور تجارتی حلقوں کے رابطوں میں فروغ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ تعلقات میں پیش رفت کے لیے سیاسی عزم موجود ہے۔ ان کے بقول عوام اور اداروں کے درمیان رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے جس سے تعلقات میں پیش رفت اور دیرینہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
سلمان خورشید نے کہا کہ ملاقات میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جیلوں میں بند قیدیوں خاص طور پر ماہی گیروں کے معاملے کو حل کرنے پر توجہ دینے پر بات ہوئی۔
وزیراعظم نوازشریف حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاک بھارت مشترکہ بزنس کونسل کے عہدیداروں سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت خطے میں امن و خوشحالی کی پالیسی پر کاربند ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ دنوں ملکوں کے عوام کو قریب لایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اعتماد سازی کے اقدامات اور اقتصادی تعلقات سے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
یہ ملاقاتیں برونائی دارالسلام میں جنوب مشرقی ایشائی ملکوں کی تنظیم ’آسیان‘ کے اجلاس کے موقع پر ہوئیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سرتاج عزیز اور جان کیری کے درمیان ملاقات کا محور افغانستان سے 2014ء کے اختتام پر نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاک امریکہ دوطرفہ تعاون تھا۔
بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدتی شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کے آئندہ دور کی ضرورت پر زور دیا۔
ان مذاکرات کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا اعلٰی عہدیداروں کے ورکنگ گروپ کی سطح پر جائزہ لیا جاتا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان وزیر خارجہ جان کیری کے دورے کا منتظر ہے۔
وزیراعظم کے مشیر نے امریکی وزیر خارجہ کو بتایا کہ پاکستان کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برداری سے تعلقات استوار کرنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران دوطرفہ تجارت کے موجودہ پانچ ارب ڈالر کے سالانہ حجم کو 10 ارب ڈالر کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہیں۔
بیان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اقتصادی بحالی کے لیے پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سراہا تاہم اُن کا کہنا تھا کہ معیشت کی بحالی لیے امن و امان کی صورت حال میں بہتری ضروری ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہو سکے۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا اعلٰی سطحی رابطہ تھا۔
اس سے قبل سرتاج عزیز نے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید سے بھی ملاقات کی۔ اُنھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے جامع امن مذاکرات کی دوبارہ شروعات کا جائزہ لیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ سلمان خورشید سے ملاقات میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ دو طرفہ تعاون کو بہتر بنانے کے لیے فوری طور کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز کے بقول پاکستان اور بھارت کے عوام کی خواہش ہے کہ تعاون کو بڑھایا جائے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں اعلٰی عہدیداروں پر مشتمل ’ورکنگ گروپوں‘ کی آئندہ مہینوں میں ملاقاتوں پر اتفاق کے علاوہ، عوامی اور تجارتی حلقوں کے رابطوں میں فروغ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ تعلقات میں پیش رفت کے لیے سیاسی عزم موجود ہے۔ ان کے بقول عوام اور اداروں کے درمیان رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے جس سے تعلقات میں پیش رفت اور دیرینہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
سلمان خورشید نے کہا کہ ملاقات میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جیلوں میں بند قیدیوں خاص طور پر ماہی گیروں کے معاملے کو حل کرنے پر توجہ دینے پر بات ہوئی۔
وزیراعظم نوازشریف حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاک بھارت مشترکہ بزنس کونسل کے عہدیداروں سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت خطے میں امن و خوشحالی کی پالیسی پر کاربند ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ دنوں ملکوں کے عوام کو قریب لایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اعتماد سازی کے اقدامات اور اقتصادی تعلقات سے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔