رسائی کے لنکس

پشاور میں حملہ کرنے والے ’غیر ملکی‘ شدت پسند تھے: چوہدری نثار


پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے سبب بہت سے جنگجو سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے ہیں جہاں سے وہ ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دعویٰ کیا ہے کہ پشاور میں مسیحی برداری کی کالونی پر حملے میں ملوث شدت پسند غیر ملکی تھے، تاہم اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کا تعلق کس ملک سے تھا۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں جمعہ کو وارسک روڈ پر واقع "کرسچیئن کالونی" میں دہشت گرد داخل ہو گئے تھے لیکن سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کر کے حملہ ناکام بنا دیا تھا۔

فوج کے مطابق چاروں حملہ آور مارے گئے مگر فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کے دو اور پولیس کا ایک اہلکار زخمی جب کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

اس حملے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ایک قریبی ضلع مردان میں کچہری پر ایک خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں وکلا اور پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 13 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتہ کو مردان کا دورہ کیا اور اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پشاور میں مسیحی برداری کی کالونی پر جو حملہ ہوا، اُس کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق حملہ آور غیر ملکی تھے۔

’’اب تک کی تحقیقات کے مطابق وہ غیر ملکی تھے۔۔۔۔ یہ ہمارے ایک مخصوص قبائلی علاقے سے یہاں آئے اور پھر وہ وارسک کے مقام پر پہنچے۔ مگر یہ پیچھے سے کہاں سے آئے، اُن کے سہولت کار کون تھے اور رات کو کہاں رہے اُس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ ‘‘

واضح رہے کہ پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے سبب بہت سے جنگجو سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے ہیں جہاں سے وہ ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

یہ معاملہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ بھی ہے۔

اُدھر افغانستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد افغان قیادت کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اُن کے ملک میں حملہ کرنے والے دہشت گرد پاکستان میں روپوش اپنی قیادت سے ہدایت لیتے ہیں۔

تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف اگرچہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو حالیہ برسوں میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں لیکن وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ابھی نہیں ہوا ہے۔

’’اُن کو شکست ہو چکی ہے، بہت سارے بھاگ چکے ہیں۔۔۔ مکمل ختم نہیں ہوئے۔ کوئی غلط فہمی میں نا رہے کہ یہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہم نے اس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔۔۔۔ دوسری بات یہ ہے جب اس قسم کا واقعہ ہو تو قوم کے اتحاد اور اتفاق کا پیغام جانا چاہیئے۔‘‘

رواں ہفتے ہی پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ افغانستان سے ملحقہ سرحد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے تاکہ دہشت گرد پاکستان میں داخل نا ہو سکیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد 2600 کلومیٹر طویل ہے، جس کا بیشتر حصہ دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے جسے عسکریت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخلے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

دریں اثنا جمعہ کو پشاور اور مردان میں ہونے والے حملوں کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں جن میں متعدد مشتبہ افراد کو تحویل میں بھی لیا گیا ہے۔

جب کہ مردان کچہری پر حملے میں وکلا کی ہلاکت پر وکلاء تنظیموں کے نمائندوں کی طرف سے احتجاج بھی جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG