پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت ملک میں دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے اور فوجی آپریشن ضرب عضب کے بعد سے عسکریت پسند یا تو مارے گئے ہیں یا سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔
بدھ کو افغان سرحد سے ملحقہ علاقے خیبر ایجنسی میں لنڈی کوتل کے مقام پر ’ایف سی‘ کے جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں دہشت گردی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔
"دنیا میں دیکھیں دہشت گردی کا گراف بڑھا ہے، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں دہشت گردی کا گراف نیچے آ رہا ہے۔۔۔اس وقت کوئی دہشت گرد نیٹ ورک یا ہیڈکوارٹر نہیں ہے پاکستان میں۔"
چودھری نثار نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمدروفت کو روکا جا سکے۔
"ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے اس کے لیے ہم نے بہت ساری کوشش کی ہے کہ بہتری آئے۔۔۔ افغان ہمارے بھائی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ ادھر آئیں ہم ادھر جائیں، مگر یہ کھلا آنا جانا دہشت گرد اسے استعمال کرتے ہیں۔۔۔ہم نے اس پر فیصلہ کیا کہ اب اس کی رکاوٹ ہونی چاہیے، 2020ء تک صرف چھ کنٹرولڈ روٹس ہوں گے۔"
ان کے بقول کھلے عام لوگوں کی آمدورفت کی آڑ میں دہشت گرد بھی ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہو جاتے ہیں جس کے لیے یہ اقدام ضروری ہیں۔
پاکستانی وزیر نے اس موقع پر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت پاکستان اور افغانستان کے عوام کے "ان مٹ رشتے" کا پاس رکھے۔
"میں افغان حکومت سے کہتا ہوں کہ وہ اوروں کے بہکاوے میں نہ آئیں اوروں کا کھیل نہ کھیلیں، پاکستان افغانستان کے بارے میں انتہائی اچھے جذبات رکھتا ہے، پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔"
پاکستان یہ الزامات عائد کرتا ہے کہ بھارت اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا ہے۔ لیکن بھارت اور افغانستان دونوں ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔