پاکستان کے بھارت پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات اور اندرونِ ملک سیاسی محاذ آرائی پر مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ جب کہ موجودہ دور میں پاکستان کے بیرونی چیلنجز بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز' کے مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) عبد اللہ خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی خطے میں پوزیشن کے باعث اس کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اُن کے بقول پاکستان پہلے افغانستان میں روس کے خلاف لڑتا رہا۔ جب کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل رہا۔ موجودہ دور میں اس کے لیے بیرونی چیلنجز بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا لگاتار ہونا اور پھر سرحدوں پر جھڑپیں اس تناظر میں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کی فوج پر دباؤ بڑھایا جائے۔ پاکستان کی حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی سیاست اس وقت حکومت اور فوج پر دباؤ بڑھانے کی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارت پر دہشت گردی کے الزامات لگائے تھے۔ اور اس حوالے سے ڈوزیئر بھی نئی دہلی کے حوالے کیے تھے جس پر بھارت نے الزامات کی تردید کی تھی۔ البتہ اسلام آباد نے بھارت کے ردِ عمل کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دیدہ دلیری سے من گھڑت مؤقف اپنایا ہے۔
افغانستان بھی اسلام آباد کے الزامات مسترد کر چکا ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارت افغانستان کی سر زمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کے حوالے کیے گئے ڈوزیئر میں بھارت کی پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے لیے مالی معاونت اور تخریب کاری کے شواہد موجود ہیں۔
'اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں'
'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز' کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبد اللہ خان کہتے ہیں کہ بیرونی چیلنجز کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام بہت بڑھتا جا رہا ہے۔ 2013 میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو عمران خان سڑکوں پر تھے۔ اب عمران خان وزیرِ اعظم ہیں تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سڑکوں پر ہے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ سب وہ وجوہات ہیں جس سے پاکستان کے لیے چیلنجز روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
عبد اللہ خان نے کہا کہ امریکہ میں انتظامیہ کی تبدیلی کا اس صورتِ حال پر زیادہ اثر نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے حوالے سے بعض اطلاعات کے مطابق بھارت حملہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں پاکستان نے جو ڈوزئیر دیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بتایا جا سکے کہ بھارت یہ کرنا چاہتا ہے اور پاکستان اس صورتِ حال سے بچنا چاہتا ہے۔
عبد اللہ خان نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھارت کا دباؤ محسوس کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر ہی پاکستان نے سلامتی کونسل تک ثبوت پہنچائے ہیں۔ جن میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت شامل ہے۔
ان کے مطابق ایسے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر بھی مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔
'ردِ عمل کے لیے تیار رہنا چاہیے'
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان نے ثبوت پیش کر دیے ہیں لیکن اب اس کے ردِ عمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جو ثبوت دنیا کو دکھائے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل اس حوالے سے کوشش کر رہے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا مسلسل ہونا اور پھر سرحدوں پر جھڑپیں بھی اسی تناظر میں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کی فوج پر دباؤ بڑھایا جائے۔
جنرل امجد شعیب نے پاکستان کی اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی سیاست اس وقت حکومت اور فوج پر دباؤ بڑھانے کی ہے۔
ان کے مطابق بالخصوص فوجی قیادت کا نام لے کر انہیں بدنام کرنا فوج کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد مرضی کے نتائج کا حصول ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔
افغانستان پر الزامات
اسلام آباد ماضی میں بھی افغانستان پر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ ماضی میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے سمیت دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں سے متعلق کہا گیا کہ ان میں افغان سرزمین استعمال ہوئی تھی۔
تاہم کابل افغان سرزمین کے دہشت گردوں کی تربیت اور پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے اسلام آباد کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
افغان وزارتِ خارجہ نے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا کہ افغانستان خود دہشت گردی سے متاثر ہے۔ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر گامزن ہے۔
ترجمان کے مطابق افغانستان اپنی سر زمین کسی اور ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس حوالے سے تجزیہ کار عبد اللہ خان کہتے ہیں کہ پاکستان کا جغرافیائی محل و وقوع اس کے لیے خطرات کو بڑھا رہے ہیں۔ اس کو ملک کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن قیادت کے بر وقت اور مثبت فیصلوں کی کمی کی وجہ سے پاکستان خطرات میں ہے۔
ان کے مطابق افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اور نائن الیون کے بعد پاکستان اس خطے میں تنازع کے قریب رہا۔ اس دوران جس طرح سرحد رہی اس میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
پاکستان کے اندرونی چیلنجز
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے مسلسل سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے حالیہ دنوں میں جلسوں کا اعلان کیا اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس بارے میں جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ اپوزیشن جو بیانیہ لے کر چل رہی ہے، وہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ پاکستان کے بعض سیاست دان اس ملک کو مزید مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک طرف سیاست دان سڑکوں پر ہیں تو دوسری طرف مذہبی عناصر بھی سر اٹھا رہے ہیں اور حکومت ان سے ان کی پسند کے مطابق معاہدے کرنے پر مجبور ہے۔ حالیہ مثال مذہبی تنظیم 'تحریک لبیک' کی ہے جنہوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے مرکزی مقام فیض آباد پر ایک بار پھر دھرنا دیا اور اس کے بعد حکومت کے وزرا سے فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنے کا معاہدہ لے کر روانہ ہوئے۔
اس بارے میں عبد اللہ خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہر معاملے میں موضوع بحث ہے۔ بیرونی معاملات پر تو ان کا کردار سمجھ آتا ہے۔ لیکن سیاسی معاملات میں ان کا نام آنا بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں پاکستان میں داعش اور القاعدہ کے بعض دہشت گردوں کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ ان کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ جب کہ حکومت نے خود اعلان کیا ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف ملک مشکل اقتصادی صورتِ حال سے دو چار ہے اور ایسے میں کرونا وائرس سے بھی نبرد آزما ہے۔ دہشت گردی کی چھوٹی یا بڑی لہر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔