پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ حکومت کسی ’مینڈینٹ‘ کی تلاش میں نہیں بلکہ چاہتی ہے کہ ایوان اس کی رہنمائی کرے۔
سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی طرف سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری فضائی کارروائیوں کے بعد کی صورت حال اور اس جنگ میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر بحث کے لیے پارلیمان کا اجلاس منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین نے اجلاس میں کہا کہ یمن کے تنازعے کے حل کے لیےپاکستان کو ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کو ایک جگہ اکٹھا کرنا چاہیئے۔
’’وزیراعظم نواز شریف ابھی ترکی گئے ہیں، ترکی کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان اور ترکی کو مشترکہ طور پر استنبول یا اسلام آباد (ایک اجلاس کی میزبانی کرنی چاہیئے جس میں) ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کو بلانا چاہیئے۔۔۔ آپ آئیں بات کریں‘‘۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا بدھ کو دورہ اسلام آباد طے ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کا بھی اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایران کو یمن کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔
’’یمن کے حوالے سے ایران کو بھی اپنی پالیسی پر غور و خوض کرنا چاہیئے کہ کیا یہ پالیسی درست ہے یا نہیں‘‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس تنازع کے بارے میں اُن کی حکومت نے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی اور اُن کے بقول وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے دیے جانے والے پالیسی بیان میں جو چیزیں ضروری تھیں وہ بتا دی گئیں۔
خواجہ آصف نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے زمینی افواج کے علاوہ، فضائی اور بحری مدد بھی مانگی ہے۔
وزیراعظم نے ایوان سے کہا کہ اب ہمارے دوستوں (سعودی عرب) کو جو چیزیں درکار ہیں، اُن کے بارے میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بتائے کہ حکومت کیا کرے یا اور کیا نا کرے۔
’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو حکومت کی خواہش ہے اُس کے مطابق ہی آپ بھی فیصلہ کریں۔ آپ ہماری رہنمائی کریں۔ ہم یہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب کی سرحدی خود مختاری پر کوئی وار ہوتا ہے تو پاکستان سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا اور جنگ کرنے والوں کے خلاف ہم سب مل کر جنگ لڑیں گے۔‘‘
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اس تمام معاملے پر عسکری قیادت سمیت تمام اداروں سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔
’’غالباً پوری قوم کی نظریں اس اجلاس کی طرف ہیں یہ (پارلیمان) کیا فیصلہ کرتا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس اجلاس میں جو فیصلہ کیا جائے گا اُس پر من و عن عمل درآمد کیا جائے گا۔‘‘
وزیراعظم نے کہا کہ اس تنازع کے سفارتی حل کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اُن کا دورہ ترکی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے پر ترکی اور پاکستان کا موقف بہت حد تک یکساں ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ترک صدر کے ہمراہ دیگر مسلم ممالک سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔