رسائی کے لنکس

بھارت اور امریکہ کے دفاعی تعلقات پر فکر مند نہیں: پاکستان


Ultra-Orthodox Jewish boys pray along the Mediterranean Sea in the Israeli city of Herzliya, near Tel Aviv, while performing the "Tashlich" ritual during which "sins are cast into the water to the fish".
Ultra-Orthodox Jewish boys pray along the Mediterranean Sea in the Israeli city of Herzliya, near Tel Aviv, while performing the "Tashlich" ritual during which "sins are cast into the water to the fish".

پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں لیکن کم سے کم دفاع کی صلاحیت کو برقرار رکھنا اس کا حق ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات سے فکر مند نہیں ہے اور وہ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی دفاعی شعبے میں اپنے تعاون کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہے۔

بدھ کو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تذویراتی اور دفاعی صلاحیتوں میں توازن کی ضرورت ہے جس کا اعتراف ان کے بقول امریکہ نے بھی کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کی طرف سے ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان کا ملک اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیگر ممالک سے بھی رابطوں میں ہے۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون حالیہ مہینوں میں بڑھا ہے اور گزشتہ ماہ ہی امریکی محکمہ دفاع میں ایک خصوصی مرکز قائم کیا گیا جس کے تحت جدید ترین عسکری سازو سامان کی مشترکہ تیاری اور دیگر امور کو تیز کرنے پر توجہ دی جائے گی۔

پینٹاگون میں کسی ملک کے لیے اس نوعیت کا قائم کیا جانے والا یہ پہلا مرکز ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھی امریکہ مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے جس میں دفاع بھی شامل ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں پاکستان نے چین اور روس کے علاوہ جرمنی کے ساتھ بھی اس ضمن میں اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کو تیز کیا ہے۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے رکن صلاح الدین ترمذی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی تناؤ اور افغان سرحد کی صورتحال پاکستان کے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور وہ اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا۔

"اگر کسی ایک پر انحصار کیا جائے اور ضرورت کے وقت اگر وہ کسی وجہ سے ساتھ نہ دے سکے تو پھر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔۔۔آج کل کے حالات میں کسی ملک کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنا بڑا مشکل ہے تو روایتی ہتھیاروں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم ایسی صلاحیت اس لیے نہیں چاہتے کہ ہم نے ان (بھارت) پر یلغار کرنی ہے لیکن ہمارے پاس اتنی صلاحیت تو ہو نہ کہ جو دھمکیاں ملتی ہیں ان کا ہم سد باب کر سکیں۔"

پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں لیکن کم سے کم دفاع کی صلاحیت کو برقرار رکھنا اس کا حق ہے۔

حال ہی میں پاکستان نے روس سے ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا معاہدہ بھی کیا ہے جب کہ دیرینہ دوست ملک چین کے ساتھ پہلے سے جاری اس کے دفاعی تعاون میں مزید وسعت دیکھی جا رہی ہے۔

چین سے آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ بھی ہوا ہے جس میں سے چار پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں تیار کی جائیں گی۔

پاکستان اور بھارت روایتی حریف اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک ہیں جن کے تعلقات ان دنوں ایک بار شدید کشیدہ ہیں۔ امریکہ اور چین یہ کہہ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ خطے کے امن کے لیے مضر ہے لہذا دونوں کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گا۔

XS
SM
MD
LG