اسلام آباد —
بلوچستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے ملک کی عدالت عظمٰی سےایک حالیہ فیصلے پرنظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کئی سالوں سے شدید دباؤ اور جان ہتھیلی پر رکھ کر پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں، مگر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اب اُن کے پاس بظاہر’’موت اور جیل‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے حال ہی میں حکام کو ہدایت کی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے نقطہ نظر کی اشاعت اورتشہیر پر پابندی کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں صوبائی حکام نے اقدامات بھی کیے ہیں۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (بی یوجے) جنرل سیکرٹری حماد اللہ رند کہتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے نے ان کی برادری کو ایک انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ صوبے میں متحرک کالعدم اور دیگر عسکری تنظیمیں اپنے موقف کی اشاعت و تشہیر کے لیے صحافیوں پر دباؤ ڈالتی آئی ہیں کیونکہ دوسری صورت میں جان جانے کا خطرہ رہتا تھا۔
’’مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ہمیں ان تنظیموں کی ناراضگی مول لینا پڑے گی کیونکہ دوسری صورت میں توہین عدالت کی پاداش میں ہمیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ صوبائی حکام اور وفاقی عہدے داروں سے اپنی پریشانی کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
’’سپریم کورٹ تھوڑا بہت ہم پر بھی رحم کرے۔ ہم کہاں جائیں۔ ہم پالیسی ساز تو نہیں کہ بیٹھ کر پالیسی طے کریں۔ ظاہر ہے ہم ملازم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ وہ رحم کرے۔‘‘
حماد اللہ نے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں کو صرف عدلیہ اور حکومت سے شکایت نہیں بلکہ اُنھیں سول سوسائٹی کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور دیگر سماجی اداروں سے بھی گلہ ہے۔
’’خضدار میں پریس کلب کو ایک ماہ سے تالا لگا ہوا ہے مگر کسی سیاسی و سماجی شخصیت یا پھرحکومتی نمائندے نے صحافیوں سے رابطہ کر کے اُن کی فریاد نہیں سنی۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ خضدار کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کی قاتلانہ حملے میں ہلاکت کے بعد وہاں سے کئی دیگر صحافی بھی دھمکیاں ملنے کے بعد اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کر کے کوئٹہ میں آ کر رہ رہے ہیں مگر اُن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
حماد اللہ نے بتایا کہ عیدالاضحٰی سے دو روز قبل خضدار پریس کلب کے صدر پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ خود بچ گئے مگر اُن کے دو بیٹے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نیویارک میں قائم صحافیوں کےحقوق کا دفاع کرنے والی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ سی پی جے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں صحافی ایک تاریک مستقبل سے دوچار ہیں کیونکہ پاکستان کا یہ شورش زدہ صوبہ صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد پر حملوں کا تازہ ترین مرکز بن گیا ہے۔
رواں سال اب تک پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے پانچ جان لیوا حملوں میں سے تین بلوچستان میں پیش آئے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے حال ہی میں حکام کو ہدایت کی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے نقطہ نظر کی اشاعت اورتشہیر پر پابندی کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں صوبائی حکام نے اقدامات بھی کیے ہیں۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (بی یوجے) جنرل سیکرٹری حماد اللہ رند کہتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے نے ان کی برادری کو ایک انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ صوبے میں متحرک کالعدم اور دیگر عسکری تنظیمیں اپنے موقف کی اشاعت و تشہیر کے لیے صحافیوں پر دباؤ ڈالتی آئی ہیں کیونکہ دوسری صورت میں جان جانے کا خطرہ رہتا تھا۔
’’مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ہمیں ان تنظیموں کی ناراضگی مول لینا پڑے گی کیونکہ دوسری صورت میں توہین عدالت کی پاداش میں ہمیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ صوبائی حکام اور وفاقی عہدے داروں سے اپنی پریشانی کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
’’سپریم کورٹ تھوڑا بہت ہم پر بھی رحم کرے۔ ہم کہاں جائیں۔ ہم پالیسی ساز تو نہیں کہ بیٹھ کر پالیسی طے کریں۔ ظاہر ہے ہم ملازم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ وہ رحم کرے۔‘‘
حماد اللہ نے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں کو صرف عدلیہ اور حکومت سے شکایت نہیں بلکہ اُنھیں سول سوسائٹی کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور دیگر سماجی اداروں سے بھی گلہ ہے۔
’’خضدار میں پریس کلب کو ایک ماہ سے تالا لگا ہوا ہے مگر کسی سیاسی و سماجی شخصیت یا پھرحکومتی نمائندے نے صحافیوں سے رابطہ کر کے اُن کی فریاد نہیں سنی۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ خضدار کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کی قاتلانہ حملے میں ہلاکت کے بعد وہاں سے کئی دیگر صحافی بھی دھمکیاں ملنے کے بعد اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کر کے کوئٹہ میں آ کر رہ رہے ہیں مگر اُن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
حماد اللہ نے بتایا کہ عیدالاضحٰی سے دو روز قبل خضدار پریس کلب کے صدر پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ خود بچ گئے مگر اُن کے دو بیٹے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نیویارک میں قائم صحافیوں کےحقوق کا دفاع کرنے والی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ سی پی جے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں صحافی ایک تاریک مستقبل سے دوچار ہیں کیونکہ پاکستان کا یہ شورش زدہ صوبہ صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد پر حملوں کا تازہ ترین مرکز بن گیا ہے۔
رواں سال اب تک پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے پانچ جان لیوا حملوں میں سے تین بلوچستان میں پیش آئے۔