پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شہر کے مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی حکومت کام کر رہی ہے اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی حکومت کہیں نظر آتی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریمارکس دیے کہ اس کی وجہ عزم کی کمی ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ کراچی کے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن میں تمام غیر قانونی تعمیرات کو فوری گرایا جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ گراونڈ پلس ون کی اجازت والے علاقے میں نو، نو منزلہ اونچی اونچی عمارتیں کیسے بن گئیں؟ سارے علاقے میں پورشنز بناکر پانچ پانچ کروڑ روپے میں بیچے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات جب ہو رہی تھیں تو اپنے خزانے بھر لئے گئے۔ اس وقت آنکھیں بند کیوں کر رکھی گئیں؟ علاقے میں سارے کھلے میدان تک ختم کر دیے گئے اور یہ سب کچھ حکام کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔
عدالت نے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں واقع دہلی کالونی، پنجاب کالونی، پی این ٹی کالونی اور ملحقہ علاقوں میں تجاوزات فوری ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔
"ڈی ایچ اے کی کہانی معلوم ہے، لیزیں کھولیں تو ہم بھی فارغ ہو جائیں گے"
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی کہانی بھی عدالت کو معلوم ہے۔ جائزہ لیں تو سارا کچھ غیر قانونی نکلے گا۔ ساری لیزیں فارغ ہو جائیں گی۔ انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو "وہ بھی فارغ ہو جائیں گے۔ لیکن فارغ ہو بھی جائیں تو بھی کوئی بات نہیں، ہمیں قانون پر چلنا ہے"۔
واضح رہے کہ کراچی کی پوش ترین آبادی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود ہی میں آتی ہے جو پاکستان کی بری فوج کے زیر اہتمام ہے اور اس کے صدر کور کمانڈر کراچی، جب کہ ایڈمنسٹریٹر حاضر سروس بریگیڈئیر رینک کا افسر ہوتا ہے۔ تاہم کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے شہریوں میں قائم اس سوسائٹی میں سویلین بھی مکانات خرید سکتے ہیں۔
سرکاری کواٹرز میں غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا حکم
تین رکنی بینچ نے کراچی کے مختلف علاقوں کے سرکاری کوارٹرز میں قائم تمام غیر قانونی تعمیرات فوری گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کوارٹرز کی جگہ خالی کرا کے وفاقی حکومت کے ملازمین کو ہی دی جائے۔
عدالت نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے پاس جھومر کی طرح لٹکی ہوئی کچی آبادیاں ختم کی جائیں۔ کچی آبادیوں میں بسنے والوں کی آبادکاری کے لئے منصوبہ پیش بھی کیا جائے۔
دوران سماعت بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن اور دیگر کو تو زمینیں الاٹ کی جا رہی تھیں، مگر کھیل کے میدان اور پارکس تک کے لئے زمینیں کیوں نہیں رکھی گئیں؟ جسٹس فیصل عرب نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کا درد ہے کہ آپ کو خود خیال نہیں۔
عدالت نے حکومت کی جانب سے سٹی پلاننگ کے لئے قائم کمیٹی کی تجویز مسترد کی اور کہا کہ حکومت کمیٹی کے چکر میں وقت گزارنا چاہتی ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی ممانعت
عدالت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کے معاملہ کی بھی سماعت کی اور کے پی ٹی کے وکیل کو کہا کہ آپ زمین کے مالک نہیں ہیں، بلکہ آپ کو کے پی ٹی کی سرگرمیوں کے لئے زمین دی گئی تھی۔ ادارے کے پاس لیز نہیں تھی تو آپ نے آگے زمین کیسے لیز پر دے دی۔
بینچ میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ادارے کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کے لئے پچیس، پچیس سال کے لئے لائسنس دے دیئے گئے جو اب 99 ، 99 سال کی لیز کی جا رہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مفادات کے اس ٹکراؤ کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا میں چیف جسٹس کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی زمین اپنے نام پر یا اپنے ججز کو الاٹ کر سکتا ہوں؟ ہمیں کورٹ چلانے کے لئے جگہ ملی ہے ذاتی استعمال کے لئے نہیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو اپنے نام پر کر لے گا؟ اسی طرح آپ کیسے اس زمین کے مالک بن رہے ہیں؟
عدالت نے قرار دیا کہ پورٹ سروسز کے مقصد کے علاوہ زمین کسی اور مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہو سکتی۔ اگر زمین پورٹ سروسز کے استعمال میں نہیں ہے تو سندھ حکومت کو واپس کی جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق صوبائی حکومت کی زمین وفاقی حکومت لیز نہیں کر سکتی، جب کہ عدالت نے کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات کو فوری گرانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین پر مائی کولاچی میں مینگرووز کے جنگلات کے انتہائی قریب آفیسرز سوسائٹی کے لئے کام گزشتہ 15 سال سے زیر التوا ہے۔ جس میں اب تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
عدالت نے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات سے متعلق مقدمات کی مزید سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی۔