مظفر آباد —
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان دنوں موسم بہار کی شجر کاری مہم جاری ہے جس میں آٹھ ہزار ایکڑ رقبے پر 34 لاکھ پودے لگائیں جائیں گے۔ شجرکاری کے عمل میں پاکستانی فوج کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 1947ء میں پاکستانی کشمیر کے 42 فیصد رقبے پر جنگلات تھے جو اب کم ہو کر صرف 11 فیصد تک رہ گئے ہیں جس کی وجہ ان کے بقول تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور لوگوں کا ایندھن، تعمیرات اور کاروبار کے لیے جنگلات پر انحصار ہے۔
پاکستانی کشمیر کے محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر ملک محمد یونس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں سالانہ ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر شجرکاری ضروری ہے لیکن اقتصادی مسائل سے جنگلات بھی متاثر ہوا، جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہو رہا۔
’’ معاشی مسائل تو عالمی بھی ہیں علاقائی بھی اور پاکستان کی سطح پر بھی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں فنڈز دستیاب نہیں ہوتے اور قدرتی وسائل کا بڑھاوا پھر ہماری ترجیحات میں شامل نہیں جس کی وجہ سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے جن کی ہمیں خواہش ہے یا جن کی ہمیں ضرورت بھی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ 2008 تک ہر سال 40 سے 50 ہزار ایکڑ رقبے پر شجرکاری کی جاتی رہی جو کہ بتدریج کم ہوتی گئی۔
ملک یونس نے بتایا کہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ بھی جنگلات کی کمی کا ایک اہم سبب ہیں جن کے تدارک کے لیے سخت قوانین بنانے اور ان پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی شجر کاری کی اس حالیہ مہم کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔
’’اس دفعہ موسم نے بھی بھرپور ساتھ دیا ہے بارشیں خوب ہو رہی ہیں اس لحاظ سے کامیابی کا تناسب بھی بہتر رہے گا۔ اس سے پہلے 70 فیصد کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس بار مجھے یقین ہے کہ پودوں کی بقا کی شرح کافی مناسب رہے گی۔‘‘
ماہرین ماحولیات کے مطابق آب و ہوا کو صاف رکھنے کے لیے 20 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یہ شرح 2.1 فیصد ہے۔
محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 1947ء میں پاکستانی کشمیر کے 42 فیصد رقبے پر جنگلات تھے جو اب کم ہو کر صرف 11 فیصد تک رہ گئے ہیں جس کی وجہ ان کے بقول تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور لوگوں کا ایندھن، تعمیرات اور کاروبار کے لیے جنگلات پر انحصار ہے۔
پاکستانی کشمیر کے محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر ملک محمد یونس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں سالانہ ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر شجرکاری ضروری ہے لیکن اقتصادی مسائل سے جنگلات بھی متاثر ہوا، جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہو رہا۔
’’ معاشی مسائل تو عالمی بھی ہیں علاقائی بھی اور پاکستان کی سطح پر بھی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں فنڈز دستیاب نہیں ہوتے اور قدرتی وسائل کا بڑھاوا پھر ہماری ترجیحات میں شامل نہیں جس کی وجہ سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے جن کی ہمیں خواہش ہے یا جن کی ہمیں ضرورت بھی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ 2008 تک ہر سال 40 سے 50 ہزار ایکڑ رقبے پر شجرکاری کی جاتی رہی جو کہ بتدریج کم ہوتی گئی۔
ملک یونس نے بتایا کہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ بھی جنگلات کی کمی کا ایک اہم سبب ہیں جن کے تدارک کے لیے سخت قوانین بنانے اور ان پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی شجر کاری کی اس حالیہ مہم کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔
’’اس دفعہ موسم نے بھی بھرپور ساتھ دیا ہے بارشیں خوب ہو رہی ہیں اس لحاظ سے کامیابی کا تناسب بھی بہتر رہے گا۔ اس سے پہلے 70 فیصد کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس بار مجھے یقین ہے کہ پودوں کی بقا کی شرح کافی مناسب رہے گی۔‘‘
ماہرین ماحولیات کے مطابق آب و ہوا کو صاف رکھنے کے لیے 20 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یہ شرح 2.1 فیصد ہے۔