پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان سرحد کے قریب دور افتادہ پہاڑی ضلعے میں داعش کی خراسان شاخ کے چار دہشت گردوں کو ہلاک کر دیاگیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمۂ انسداد دہشت گردی کا ہفتے کو کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا تعلق داعش سے تھا جو افغانستان سے ملحق سرحدی ضلعے میں داخل ہوئے تھے۔
بیان کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات پر کارروائی کی اور دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوئے۔
اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد سے افغانستان میں داعش کی علاقائی شاخ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے داعش کے حملہ آوروں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان کے سفارت خانے میں ناظم الامور پر قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا۔
اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس حملے میں ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی محفوظ رہے تھے تاہم ان کے پاکستانی سیکیورٹی گارڈ کو سینے میں گولی لگی تھی۔
دوسری طرف طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ ماہ کے دوران کابل اور دوسرے علاقوں میں داعش کے درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک یا گرفتار کیا ہے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی ان کارروائیوں کے باوجود داعش کے عسکریت پسند اہم مقامات پر حملے کر رہے ہیں جب کہ ان حملوں میں طالبان اور اہل تشیع برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رواں سال ستمبر میں داعش کے خود کش حملہ آور نے کابل میں روس کے سفارت خانے کے داخلی راستے پر دھماکہ کیا تھا۔
اس خود کش دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں روسی سفارت خانے کے دو ملازم بھی شامل تھے۔
امریکہ کے نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر ایورل ہینز نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروہ بھی ان متعدد گروپوں میں شامل ہیں جن سے امریکہ کو خدشات لاحق ہیں۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہونے والے ریگن نیشنل ڈیفنس فورم میں ایورل کا کہنا تھا کہ داعش خراسان کے حوالے سے خدشات موجود ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ان خدشات میں مزید اضافہ نہ ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک تو داعش خراسان زیادہ تر طالبان کو نشانہ بنا رہی ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان ان سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کے بقول طالبان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ان سے مقابلہ کریں۔