پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں جاری انسداد پولیو کی مہم میں اس مرتبہ بھی ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے اس وائرس سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہیں گے جس سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں۔
پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم پیر کو شروع ہوئی لیکن وفاق کے زیراتنظام سات قبائلی ایجنسیوں کے بیشتر علاقوں کے بچوں تک اس مہم کے دوران رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کی ایک عہدیدار شاداب یونس کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان میں وزیر قبائل کے علاقے، اورکزئی اور کرم ایجنسیوں کے مختلف علاقوں کے علاوہ بنوں کے نیم قبائلی علاقے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکیں گے۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شاداب یونس نے کہا کہ سلامتی کے خدشات اور وہاں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو مہم کے خلاف کارروائیوں کی دھمکی کے پیش نظر اب تک ڈیڑھ لاکھ بچے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینے سے محروم ہیں۔
’’حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہاں طالبان سے بات کرے اور پولیٹیکل انتظامیہ بھی اس بارے میں کوششیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک قبائلی علاقوں میں 14 پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ادھر خیبر پختونخواہ میں انسداد پولیو مہم کے بارے میں محکمہ صحت کے ایک عہدیدار ڈاکٹر تیمور نے بتایا کہ صوبے کے 25 میں سے 9 اضلاع میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے یہ مہم 26 اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
انسداد پولیو مہم میں شامل رضاکاروں پر گزشتہ مہینوں میں ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جس سے یہ مہم بارہا معطل بھی کی جا چکی ہے۔
لیکن ڈاکٹر تیمور کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کی بدولت اس ضمن میں خاصی پیش رفت ہوئی جس کا ثبوت گزشتہ سال کی نسبت رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں قابل ذکر کمی ہے۔
’’خیبر پختونخواہ میں پانچ کیسز سامنے آئے ہیں اب تک، پچھلے سال اسی عرصے میں یہ تعداد 50 سے 55 تک تھی۔ امید ہے کہ ہم جلد ہی اس مسئلے پر پوری طرح قابو پا لیں گے۔‘‘
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں۔
پاکستان میں اب تک پولیو کے 24 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم پیر کو شروع ہوئی لیکن وفاق کے زیراتنظام سات قبائلی ایجنسیوں کے بیشتر علاقوں کے بچوں تک اس مہم کے دوران رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کی ایک عہدیدار شاداب یونس کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان میں وزیر قبائل کے علاقے، اورکزئی اور کرم ایجنسیوں کے مختلف علاقوں کے علاوہ بنوں کے نیم قبائلی علاقے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکیں گے۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شاداب یونس نے کہا کہ سلامتی کے خدشات اور وہاں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو مہم کے خلاف کارروائیوں کی دھمکی کے پیش نظر اب تک ڈیڑھ لاکھ بچے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینے سے محروم ہیں۔
’’حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہاں طالبان سے بات کرے اور پولیٹیکل انتظامیہ بھی اس بارے میں کوششیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک قبائلی علاقوں میں 14 پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ادھر خیبر پختونخواہ میں انسداد پولیو مہم کے بارے میں محکمہ صحت کے ایک عہدیدار ڈاکٹر تیمور نے بتایا کہ صوبے کے 25 میں سے 9 اضلاع میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے یہ مہم 26 اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
انسداد پولیو مہم میں شامل رضاکاروں پر گزشتہ مہینوں میں ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جس سے یہ مہم بارہا معطل بھی کی جا چکی ہے۔
لیکن ڈاکٹر تیمور کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کی بدولت اس ضمن میں خاصی پیش رفت ہوئی جس کا ثبوت گزشتہ سال کی نسبت رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں قابل ذکر کمی ہے۔
’’خیبر پختونخواہ میں پانچ کیسز سامنے آئے ہیں اب تک، پچھلے سال اسی عرصے میں یہ تعداد 50 سے 55 تک تھی۔ امید ہے کہ ہم جلد ہی اس مسئلے پر پوری طرح قابو پا لیں گے۔‘‘
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں۔
پاکستان میں اب تک پولیو کے 24 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔