پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں جمعہ کو افطار سے کچھ دیر قبل یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 57 ہو گئی ہے جب کہ دو سو سے زائد زخمیوں میں سے اب بھی بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
کرم ایجنسی کے انتظامی مرکز پاڑا چنارکے ایک مصروف علاقے میں ایک امام بارگاہ کے قریب پہلے بم دھماکے کے چند ہی منٹ بعد قریبی اسکول روڈ پر دوسرا دھماکا ہوا۔
مرنے والوں کا تعلق شیعہ برادری سے تھا اور ان دھماکوں کے خلاف اہل تشیع کی تنظیم مجلس وحدت المسلمین نے ہفتہ کو ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کی کال دی ہے، جب کہ کرم ایجنسی میں ہفتہ کو فضا سوگوار ہے۔
بیشتر زخمی پاڑا چنار کے مرکزی اسپتال میں زیر علاج ہیں، کیوں کہ علاقائی اسپتال میں اس قدر زخمیوں کو بیک وقت علاج کی سہولت فراہم کرنے کی گنجائش نہیں اس لیے مقامی انتظامیہ کو اس ضمن بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاڑا چنار میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما نثار حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کے خلاف علاقے کے لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
’’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ابھی یہاں فضا سوگوار ہے، بازار، کاروبار بند ہیں اور لوگ مرنے والوں کی تدفین اور اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت میں مصروف ہیں۔‘‘
ان دو مہلک بم دھماکوں سے قبل ایک مسافر گاڑی کو بھی اسی قبائلی علاقے میں سڑک میں نصب بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
کرم ایجنسی کا علاقہ ماضی میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کی لپیٹ میں رہا تاہم فریقین کے مقامی جرگے کے بعد حالیہ مہینوں میں حالات میں کچھ بہتر آئی ہے۔ اس قبائلی علاقے کے انتظامی مرکز پاڑہ چنار میں زیادہ تر اہل تشیع آباد ہیں۔
اُدھر سرکاری میڈیا کے مطابق کرم ایجنسی سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو میں ہفتہ کی صبح سیکورٹی فورسز کی ایک چوکی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔
سکیورٹی فورسز نے حملہ پسپا کرتے ہوئے جوابی کارروائی میں پانچ مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
کرم ایجنسی کے انتظامی مرکز پاڑا چنارکے ایک مصروف علاقے میں ایک امام بارگاہ کے قریب پہلے بم دھماکے کے چند ہی منٹ بعد قریبی اسکول روڈ پر دوسرا دھماکا ہوا۔
مرنے والوں کا تعلق شیعہ برادری سے تھا اور ان دھماکوں کے خلاف اہل تشیع کی تنظیم مجلس وحدت المسلمین نے ہفتہ کو ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کی کال دی ہے، جب کہ کرم ایجنسی میں ہفتہ کو فضا سوگوار ہے۔
بیشتر زخمی پاڑا چنار کے مرکزی اسپتال میں زیر علاج ہیں، کیوں کہ علاقائی اسپتال میں اس قدر زخمیوں کو بیک وقت علاج کی سہولت فراہم کرنے کی گنجائش نہیں اس لیے مقامی انتظامیہ کو اس ضمن بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاڑا چنار میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما نثار حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کے خلاف علاقے کے لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
’’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ابھی یہاں فضا سوگوار ہے، بازار، کاروبار بند ہیں اور لوگ مرنے والوں کی تدفین اور اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت میں مصروف ہیں۔‘‘
ان دو مہلک بم دھماکوں سے قبل ایک مسافر گاڑی کو بھی اسی قبائلی علاقے میں سڑک میں نصب بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
کرم ایجنسی کا علاقہ ماضی میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کی لپیٹ میں رہا تاہم فریقین کے مقامی جرگے کے بعد حالیہ مہینوں میں حالات میں کچھ بہتر آئی ہے۔ اس قبائلی علاقے کے انتظامی مرکز پاڑہ چنار میں زیادہ تر اہل تشیع آباد ہیں۔
اُدھر سرکاری میڈیا کے مطابق کرم ایجنسی سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو میں ہفتہ کی صبح سیکورٹی فورسز کی ایک چوکی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔
سکیورٹی فورسز نے حملہ پسپا کرتے ہوئے جوابی کارروائی میں پانچ مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔