مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اگرچہ ملک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے اور محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں اس دن کی حقیقت سے بے خبر معاشی مشکلات کا شکار محنت کش طبقہ یکم مئی کو بھی روزگار کا متلاشی نظر آتا ہے۔
امریکہ کے شہر شکاگو میں 1886ء میں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ اپنے مسائل کی جانب مبذول کروائی تھی اور اس مناسبت سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی یکم مئی محنت کشوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
محنت کشوں کا کہنا ہے کہ یکم مئی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ ایسی تقاریب میں شرکت کر سکیں جہاں ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس دن سرکاری چھٹی کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن صرف وہی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں جن کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں۔
پینسٹھ سالہ سید حسین ایک سروس اسٹیشن پر گاڑیاں دھونے کا کام کرتے ہیں۔ ’’اتنی زیادہ مہنگائی ہے کہ یہاں راولپنڈی میں رہنے کے لیے کرایہ دینا پڑتا ہے، کام پر آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا کرایہ ہے یہ کس طرح پورا کریں۔ یہ تو پتہ ہے کہ چھٹی ہے لیکن چھٹی والے دن زیادہ خرچے ہیں اس لیے کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
محمد عدنان الیکٹریشن ہیں اور ان کا کہنا ہے نا چاہتے ہوئے بھی انھیں یوم مئی کو کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ’’ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آتے ہیں کہ چار پیسے ہوتے تو چھٹی کر لیتے لیکن جیب میں اتنا خرچ ہوتا نہیں اس لیے کام پر آنا پڑتا ہے۔‘‘
اسلام آباد کی کھڈا مارکیٹ میں یکم مئی کو بھی کام کاج میں مصروف آٹو مکینک محمد جمشید کہتے ہیں کہ گھر کا چولہا جلانے کے لیے انھیں ہر روز ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
’’ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ انجوائے کریں لیکن ہماری مجبوری ہے کام کرنا، اگر اس دن کام نہیں کریں گے تو پھر گھر والوں کو کیا دیں گے۔‘‘
پاکستان میں مزدوروں کی نمائندہ تنظیمیں طویل عرصے سے محنت کشوں کا معاوضہ بڑھانے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں اور مختلف ادوار میں اس ضمن میں پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن مزدوروں کے بقول مہنگائی میں اضافے کے مقابلے میں یہ اقدامات نا کافی ہیں۔
اسلام آباد میں وزارت محنت و افرادی قوت کے زیرِ اہتمام تقریب سے خطاب میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے مزدوروں کے بچوں کے لیے نئے اسکول اور رہائشی کالونیاں بنانے کا اعلان کیا۔
’’کم از کم ماہانہ تنخواہ جو اس وقت سات ہزار (روپے) ہے اس کو آٹھ ہزار روپے کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور پینشن میں 20 فیصد اضافے اور ڈیتھ گرانٹ کو تین لاکھ (روپے) سے بڑھا کر پانچ لاکھ (روپے) کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘
ادھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سے بڑے صوبے میں مزدوروں کی کم از کم ماہانہ تنخواہ نو ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان حالیہ سیاسی کشیدگی کے باعث پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مرکز پر سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنے صوبے میں مزدوروں کی تنخواہ سات ہزار سے نو ہزار روپے ماہانہ کرنے کا اعلان کیا۔
لیکن ان کا ماننا ہے کہ اگر سیاسی کشیدگی اور مقابلے بازی میں مزدور و محنت کش کو زیادہ پیسے ملیں اور ان کا بھلا ہو تو اس میں کیا حرج ہے۔