پاکستان میں جرائم کی تحقیقات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے معلومات کے حصول اور انھیں بطور شواہد عدالتوں میں پیش کرنے سے متعلق قانون سازی کے لیے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے پیر کو قومی اسمبلی میں مجوزہ بل کا مسودہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس نئے قانونی کا مقصد جدید آلات سے جرائم کے متعلق شواہد اکٹھے کرنا اور انٹیلی جنس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضابطے میں لے کر آنا ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہ لازم ہو گا کہ وہ کسی بھی مشتبہ فرد کی نگرانی سے قبل عدالت سے اس کی باضابطہ منظوری لیں۔
قانون کے تحت نگرانی سے متعلق عدالت سے اجازت دینے کی کارروائی بند کمرے میں کی جائے گی لیکن اس کی معیاد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ہو گی۔
جج سے اجازت حاصل کرنے کے بعد معلومات حاصل کرنے کی غرض سے تحقیقاتی ادارے متعلقہ شخص کے ای میل، موبائل، ایس ایم ایس اور انٹر پروٹوکول اور ٹیلی فون کالز کے تفصیلی ریکارڈز تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ جدید آلات سے حاصل ہونے والی معلومات کوعدالت میں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین کی عدم موجودگی سے دہشت گردی کے اکثر واقعات میں ملوث افراد سزاؤں سے بچ جاتے ہیں کیونکہ موجودہ قوانین کے تحت انٹر نیٹ، ٹیلی فون یا ویڈیو سے حاصل ہونے والی معلومات کو بطور شواہد تسلیم نہیں کیا جاتا۔
وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے پیر کو قومی اسمبلی میں مجوزہ بل کا مسودہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس نئے قانونی کا مقصد جدید آلات سے جرائم کے متعلق شواہد اکٹھے کرنا اور انٹیلی جنس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضابطے میں لے کر آنا ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہ لازم ہو گا کہ وہ کسی بھی مشتبہ فرد کی نگرانی سے قبل عدالت سے اس کی باضابطہ منظوری لیں۔
قانون کے تحت نگرانی سے متعلق عدالت سے اجازت دینے کی کارروائی بند کمرے میں کی جائے گی لیکن اس کی معیاد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ہو گی۔
جج سے اجازت حاصل کرنے کے بعد معلومات حاصل کرنے کی غرض سے تحقیقاتی ادارے متعلقہ شخص کے ای میل، موبائل، ایس ایم ایس اور انٹر پروٹوکول اور ٹیلی فون کالز کے تفصیلی ریکارڈز تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ جدید آلات سے حاصل ہونے والی معلومات کوعدالت میں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین کی عدم موجودگی سے دہشت گردی کے اکثر واقعات میں ملوث افراد سزاؤں سے بچ جاتے ہیں کیونکہ موجودہ قوانین کے تحت انٹر نیٹ، ٹیلی فون یا ویڈیو سے حاصل ہونے والی معلومات کو بطور شواہد تسلیم نہیں کیا جاتا۔