رسائی کے لنکس

پاکستان: آئل کمپنیوں کو ادائیگیوں کا مسئلہ، رواں ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ


آئل کمپنیوں کی ایڈوائزی کونسل نے وزارتِ توانائی کو ایک خط میں کہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے سبب آئل کمپنیوں کو بینکوں سے حاصل ادائیگیوں کی سہولت ناکافی ہوگئی ہے۔
آئل کمپنیوں کی ایڈوائزی کونسل نے وزارتِ توانائی کو ایک خط میں کہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے سبب آئل کمپنیوں کو بینکوں سے حاصل ادائیگیوں کی سہولت ناکافی ہوگئی ہے۔

پاکستان میں آئندہ ہفتوں کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کی وجہ بینکوں کی جانب سے درآمدات کے لیے ادائیگیوں کی سہولت (لیٹر آف کریڈٹ) محدود کرنا بتایا جاتا ہے۔

آئل کمپنیوں کی ایڈوائزی کونسل نے وزارتِ توانائی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے سبب آئل کمپنیوں کو بینکوں سے حاصل ادائیگیوں کی سہولت ناکافی ہوگئی ہے۔

آئل کمپنیوں کے سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر الیاس فاضل کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال میں حکومت کا واضح ردعمل نہیں آرہا۔ اگر صورتِ حال بدستور برقرار رہی تو رواں ماہ کے آخر یا مارچ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوجائے گی۔

پاکستان کے درآمدی بل کا ایک بڑا حصہ توانائی پر مشتمل ہوتاہےاور روپے کی گرتی ہوئی قدر درآمدی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ایسے میں خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ رواں ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈاکٹر الیاس فاضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایل سیز کے نہ کھلنے کے معاملے پر آئل کمپنیوں کے وفد نے گورنر اسٹیٹ بینک سے ملاقات کی ہے۔ تاہم ان کی یقین دہانی کے باوجود بینک پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے مالیاتی سہولت فراہم نہیں کررہے۔

البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تیل کی دستیابی سے متعلق معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

آئل اور گیس کے حوالے سے نگران ادارے اوگرا کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو تحریری جواب میں بتایا کہ ملک میں ایندھن کا وافر ذخیرہ موجود ہے جب کہ اوگرا، پیٹرولیم ڈویژن، اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کی تیل کی سپلائی چین کی صورتِ حال پر گہری نظر ہے ۔

پاکستان کو تیل کی مقامی طلب پورا کرنے کے لیے ہر ماہ تقریباً چار لاکھ 30 ہزار ٹن پیٹرول،دو لاکھ ٹن ڈیزل اور چھ لاکھ 50 ہزار ٹن خام تیل درآمد کرنے کی ضرورت ہے جس کی کل لاگت ایک ارب تیس کڑور ڈالر بنتی ہے۔

الیاس فاضل کہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، روس یوکرین جنگ جیسے مسائل کے بعد یہ صورت پیدا ہوگئی ہے کہ تیل کی درآمد پر مزید رقم ادا کرنا ہو گی لیکن بینک آئل کمپنیوں کو مالیاتی سہولت نہیں دے رہے۔

پیٹرول کی سپلائی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہے: پی ایس او

ان کے بقول یہ مسئلہ صرف نجی آئل کمپنیوں کو ہی درپیش نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی سرکاری آئل کمپنی 'پی ایس او' کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں تقریباً 60 فی صد کے قریب پٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں اور پیٹرول کی سپلائی کا نصف سے زائد حصہ پی ایس او درآمد کرتا ہے۔

تاہم پی ایس او نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ملک بھر میں پیٹرول اور گیس کی بغیر کسی رکاوٹ کے سپلائی کو یقینی بنا رہا ہے اور اس کے درآمدی کارگو منصوبہ بندی کے مطابق آسانی سے پہنچ رہے ہیں۔

حکومت نے حال ہی میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لیٹر 35 روپے کا اضافہ کیا تھا اور آئندہ دنوں میں اس میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان کو امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معطل ہونے والے مالیاتی پروگرام کو بحال کر لے گا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافے کا کہا تھا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس ہدف بڑھانے کے لیے حکومت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی قیمت میں اضافہ کر سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG