پاکستان کے صحافتی حلقوں میں یہ خبر انتہائی دکھ کے ساتھ سنی گئی کہ اسلام آباد کے صحافی فصیح الرحمان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 47 سال تھی۔ انھوں نے کئی بڑے میڈیا اداروں میں کام کیا تھا اور ان کے انتقال پر بڑے سیاسی رہنماؤں نے اخباری بیانات میں رنج و غم کا اظہار کیا۔ لیکن اس بارے میں کم لوگوں نے سوچا ہو گا کہ انھیں ہارٹ اٹیک کیوں ہوا۔ وہ کافی عرصے سے بیروزگار اور مالی حالات سے پریشان تھے۔
فصیح الرحمان موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جواں عمری میں انتقال کرنے والے پہلے میڈیا کارکن نہیں۔ چند دن پہلے سٹی 42 کے کیمرا مین رضوان ملک ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی شادی کو صرف ڈیڑھ ماہ ہوا تھا جب کہ انھیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ ان سے ایک ماہ پہلے کیپٹل ٹی وی کے کیمرا مین فیاض علی ذہنی دباؤ کے باعث چل بسے تھے۔ وہ دس ماہ تک تنخواہ کے بغیر کام کرتے رہے جس کے بعد انھیں واجبات ادا کیے بغیر نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ ان سے پہلے نومبر میں نیوز ون کے کرائم رپورٹر شیخ محمد عرفان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔ وہ سات ماہ سے تنخواہ سے محروم تھے۔
یہ فہرست یہاں ختم نہیں ہو جاتی اور ان میں چھوٹے اداروں ہی نہیں، بڑے میڈیا گروپس کے بھی کچھ نام ہیں۔ مثال کے طور پر جیو نیوز کے سینئر پروڈیوسر کامران فاروقی۔ وہ گزشتہ سال 20 جون کو اپنی سالگرہ کے دن دل کے دورے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 37 سال تھی۔ وہ بھی تنخواہوں میں تاخیر پر پریشان تھے۔
سینئر صحافی جواد نظیر، ادریس بختیار اور ممتاز ڈراما نگار انور سجاد اگرچہ کامران فاروقی کی طرح جواں سال نہیں تھے لیکن ان کی موت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جیو نیوز نے مالی بحران کی وجہ سے ان کی ملازمت جاری رکھنے سے معذرت کی تھی جس کے بعد یہ لوگ چند مہینوں میں چل بسے۔ خاص طور پر جواد نظیر کا انتقال نوٹس پیریڈ کے دوران ہوا۔
میڈیا کے موجودہ بحران میں عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد شدت آئی ہے۔ اس کا سبب دوسری وجوہات کے علاوہ اشتہارات سے متعلق پالیسی بھی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ماضی میں بے وجہ میڈیا اداروں کو کروڑوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے تھے جو اب نہیں دیے جا سکتے۔ صحافی کہتے ہیں کہ میڈیا گروپس خسارے میں نہیں بلکہ انھیں منافع میں کمی کا سامنا ہے اور وہ اسے صحافیوں کو ملازمتوں سے نکال کر یا تنخواہیں نہ دے کر پورا کر رہے ہیں۔
صحافیوں کے مسائل پر پی ایف یو جے جیسی تنظیموں سے آواز اٹھانے کی توقع کی جاتی ہے لیکن وہ اس بار وہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی ایک آدھ بیان، ایک آدھ مظاہرہ کر دیا جاتا ہے لیکن وہ بے اثر رہتا ہے۔ میڈیا گروپس کے مالکان جانتے ہیں کہ صحافی بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک ایک نام کی چار چار تنظیمیں ہوں گی تو کون ان کی بات سنے گا؟
گزشتہ سال پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چینل جیو نیوز میں تنخواہیں چار ماہ تک تاخیر کا شکار ہو گئی تھیں۔ کسی طرف سے امید نہ ملنے پر جیو نیوز کے کارکنوں نے ازخود ورکرز کمیٹی قائم کی اور انتظامیہ سے تنخواہوں کے لیے مذاکرات کیے۔ کمیٹی کے ارکان بتاتے ہیں کہ انتظامیہ سے پہلے مذاکرات کامیاب رہے تھے لیکن اب وہ وعدوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ تنخواہیں نہیں آ رہیں جس کے بعد ہڑتال شروع کر دی گئی ہے، جیو نیوز میں صبح 8 بجے سے شام بجے تک اسپورٹس ڈیسک، تمام بیوروز اور او ایس آر ڈیسک سے کوئی ٹکر اور خبر فائل نہیں کی جا رہی اور نہ ہی کوئی ویڈیو فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود چینل کی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور تنخواہوں کی کوئی امید نہیں دلائی جا رہی۔
جیو کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو صرف سرکاری ہی نہیں، نجی اشتہارات میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے مالی دباؤ میں اضافہ ہوا۔ جیو کی انتظامیہ اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس غرض سے کچھ عرصہ پہلے تنخواہوں میں کمی بھی کی گئی۔ کسی ممکنہ چھانٹیوں کو روکنے اور صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے
جیونیوز کے کاروباری حریف اے آر وائی کا حال بھی مختلف نہیں۔ گزشتہ دو سال میں جن سینکڑوں میڈیا کارکنوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے، ان میں اے آر وائی کے ندیم خان شامل ہیں۔ وہ 14 سال تک ادارے میں دل و جان سے کام کرتے رہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں ایک دن انھیں ایچ آر نے ایک خط دیا جو دراصل ان کی برطرفی کا پروانہ تھا۔ ان سے کوئی گناہ نہیں ہوا تھا۔ ادارے کا کہنا تھا کہ وہ مالی مسائل کا شکار ہے۔
ندیم خان کو بے روزگار ہوئے چھ ماہ ہو گئے ہیں لیکن انھیں دوسری ملازمت نہیں مل سکی۔ ندیم خان آج بھی حیران ہیں کہ اے آر وائی مالی بحران کا شکار ہے تو کراچی کنگز جیسی مہنگی ٹیم کو کیسے اسپانسر کر رہا ہے۔ اور اگر اسپانسر کرنے کے پیسے ہیں تو انھیں اور ان جیسے دوسرے کارکنوں کو کیوں فارغ کیا گیا۔