پاکستان میں صحافیوں کی ملک گیر انجمن 'پی ایف یو جے' کے سابق صدر مظہر عباس نے ایک بار کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں رضا علی عابدی کا تعارف یہ کہہ کر کرایا تھا کہ وہ ان کے جنم لینے سے پہلے سے صحافت کررہے ہیں۔ عابدی صاحب نے 1950 کے عشرے کے آخر میں یہ پیشہ اختیار کیا۔ اخباروں میں ملازمت کے بعد 70 کے عشرے میں بی بی سی چلے گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھنے کی رفتار میں تیزی آئی۔ جنگ میں کالم نگاری جاری ہے۔ تحریر میں ادب کی چاشنی ہے اور گفتگو کریں تو کانوں میں مٹھاس گھول دیتے ہیں۔
میں نے عابدی صاحب سے کہا کہ آپ اور میں پاکستان سے دور بیٹھے ہیں۔ میڈیا سے متعلق اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ آپ کو کیا سننے کو مل رہا ہے؟
عابدی صاحب نے کہا، پاکستانی صحافت کی سب سے زیادہ تشویش ناک خبر یہ ہے کہ حکومت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات دیا کرتی تھی، وہ بند ہوگئے ہیں۔ کتنے ہی اخباروں اور صحافیوں کی روزی اسی سے چل رہی تھی۔ اس پہ لگ گئی ہے قدغن اور گھروں میں ہوں گے اب فاقے۔ عملہ کم کیا جارہا ہے۔ تنخواہیں تاخیر کا شکار ہیں اور ساری دشواریاں جو ہوسکتی ہیں وہ اخباروں کو درپیش ہیں۔
میں نے بتایا، عابدی صاحب! پی ایف یو جے کہتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے۔
عابدی صاحب نے کہا، صحافت اتنی آزاد تو کبھی نہیں تھی۔ سنسرشپ تو ہم نے دیکھی تھی۔ اب تو کوئی سنسرشپ نہیں لگ رہی۔ جس کے جو جی میں آرہا ہے، لکھ رہا ہے۔ اور اخبار جانب دار ہوتے ہیں، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ہر جگہ کا یہ وتیرہ ہے کہ بعض اخبار بائیں طرف جھکتے ہیں، بعض اخبار دائیں طرف جھکتے ہیں۔ بعض اخبار غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو نہیں ہوتے۔ میرے حساب سے سب معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ جو حکومت کے مخالف ہیں، وہ بے حد مخالف ہیں۔ جو طرف دار ہیں، وہ دبی دبی آواز میں طرف داری کررہے ہیں۔ میں صورتحال سے مطمئن ہوں لیکن ہاں، مالی مشکلات جس کا مجھے ذاتی بھی اندازہ ہے، وہ درپیش ہیں اور وہ تشویش ناک ہیں۔
میں نے کہا، عابدی صاحب! پاکستان میں رپورٹر شکایت کر رہے ہیں کہ ان کی خبریں روکی جارہی ہیں۔ کالم نگاروں کے تند و تیز کالم نہیں چھپ رہے۔ اینکروں کے تنقیدی پروگرام نشر نہیں کیے جا رہے۔
عابدی صاحب نے کہا، میں بہت دور سے مشاہدہ کررہا ہوں۔ مجھے اندر کی معلومات نہیں ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کی پابندیاں مالکان کی طرف سے زیادہ لگتی ہیں۔ ان کی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ اول تو بے شمار لوگوں نے اخبار اس لیے نکالے ہیں کہ وہ معاشرے میں خاص سیاسی اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ فلاں خبر نہ چھپے، فلاں خبر چھپے، اس خبر کو اوپر کردو، اس کو نیچے کردو، اس میں مالکان کا دخل ہوتا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ آج کل کی ہڑبونگ میں حکومت کو اتنی فرصت ہوگی کہ وہ خبروں پہ گہری نگاہ رکھے اور پابندیاں لگائے۔ میرا خیال ہے کہ مالکان کی مصلحتیں آڑے آتی ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے اخبار اسی لیے نکالے ہیں کہ وہ ان سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہوں گے۔
وہ ایک سوال جو سب سے کررہا ہوں، میں نے عابدی صاحب سے بھی کیا کہ پرانے اخبارات اور چینلوں کو مالی مشکلات درپیش ہیں لیکن نئے اخبارات اور ٹی وی چینل بھی تواتر سے آرہے ہیں۔ یہ کیا تضاد ہے؟
عابدی صاحب نے کہا، یہ کھیل جب شروع ہوا تھا اور اچانک خودرو چینل اگنے لگے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک ایک کرکے بند ہوجائیں گے۔ لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مارکیٹ میں پیسہ تو ہے، وسائل تو ہیں۔ اور یہ کہ پیسہ افراط سے ہے۔ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتیں۔ ہم نے جنگ اخبار میں ایک سو پچاس روپے مہینہ پر کام کیا تھا۔ اب لوگوں کو سات آٹھ لاکھ ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ ہم نے کبھی اتنے پیسے ایک جگہ رکھے ہوئے بھی نہیں دیکھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ بول تو اشتہار ہی نہیں لے رہا تھا۔ پتا نہیں کیسے چل رہا تھا اور کیوں چل رہا تھا۔ اس پر مشکل وقت آیا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن جن میڈیا گروپس کا اشتہاروں پر گزارہ ہے، ان پر بھی کڑا وقت پڑا ہے۔ یہ بات تشویش ناک ہے۔