پاکستان کی سپریم کورٹ نے اخبارات سے وابستہ ملازمین کی تنخواہوں اور مالی مراعات میں اضافے سے متعلق ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ویج بورڈ ایوارڈ آئین اور قانون سے متصادم نہیں، اس لیے اس پر فوری عمل درآمد یقینی بنایا جائے، البتہ موجودہ حالات کے تناظر میں متعلقہ حلقوں کو اس میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے ویج بورڈ ایوارڈ کے مقدمے پر اپنا فیصلہ 29 ستمبر کو محفوظ کر لیا تھا جسے بدھ کو جاری کیا گیا۔
اکتوبر 2001ء میں ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے خلاف اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جسے عدالت عالیہ نے مسترد کر دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے خلاف فیصلے کے خلاف اخبارات کے مالکان نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’پی ایف یو جے‘ کے ایک رہنما پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ’’اخباری مالکان بے نقاب ہو گئے ہیں، مالکان اپنے ٹی وی چینلز پر حالات حاضرہ کے پروگراموں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں، اُن کا آزادی صحافت کا دعویٰ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کیسے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ساتویں ویج ایوارڈ کا ’’فائدہ تو ضائع ہو گیا ہے، اب مہنگائی 200، 300 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق ایوان نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اگلے مرحلے یعنی آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ میں پیش رفت کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
پاکستان میں صحافیوں کو حالیہ برسوں کے دوران جہاں مالی مشکلات کا سامنا رہا وہیں وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تشدد کا نشانہ بھی بنے اور 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد ملک میں درجنوں صحافی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے بھی قتل کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جنرلسٹس (سی پی جی) کے مطابق 2010ء میں پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ملک تھا اور اب بھی اس کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے 10 ملکوں میں ہوتا ہے۔