اسلام آباد —
مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں تعینات پاکستانی سفیروں کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں وزارت خارجہ کے عہدیداروں کے مطابق خطے میں شام اور فلسطین سے متعلق بدلتے ہوئے حالات اور ایران اور سعودی عرب میں پائی جانے والی کشیدگی سے خطے پر اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تین روزہ کانفرنس میں سفرا پاکستان کے علاقائی ممالک سے تعلقات کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دیں گے جس کی روشنی میں اسلام آباد سفارتکاری کو متوازن، موثر اور فعال بنانے کے لیے پالیسی میں ضروری رد و بدل بھی کر سکتا ہے۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان تعاون کے حوالے سے بھی خصوصی مشاورت کی جائے گی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تجارتی، سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے پر بھی بات ہو گی۔
اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی مشرق وسطیٰ منتقلی کے اعتبار سے بھی یہ اجلاس اہمیت رکھتا ہے۔
’’ایران اور عرب ممالک کے تعلقات میں کشیدگی، یہ بات واضح ہے کہ بہت حد تک پائی جاتی ہے اور پاکستان اسے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ تو شاید اس کانفرنس میں بھی بات ہو کہ کس طرح انہیں ایک پیج پر لایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ عسکریت پسندوں کا افغانستان سے مشرق وسطیٰ کا رخ کرنا وہاں صورتحال خراب کر سکتا ہے اور ’’پاکستان اپنے عرب دوستوں سے انہیں نمٹنے سے متعلق اپنے تجربات سے آگاہ کرنا چاہے گا‘‘۔
مشرق وسطیٰ کے سفرا کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے کہ جب حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا اپنا دورہ مکمل کیا اور وزیراعظم نواز شریف رواں ماہ تہران جارہے ہیں۔
معروف تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ خطے میں اثرورسوخ بڑھانے سے متعلق ایران اور سعودی عرب میں پائی جانے والی کشمکش پاکستان کے لیے کئی مسائل کا سبب ہے۔
’’ہماری خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے کہ کس طرح ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا جائے۔ اس وقت ایران کے ساتھ تعلقات میں شدید کھچاؤ ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے سے آپ نکلنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ایران سے بجلی درآمد پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو تعلقات بہتر تو تب ہوں گے جب کوئی مضبوط چیز دکھائیں گے۔‘‘
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ ریاض اور تہران سے اسلام آباد اپنے تعلقات مزید بہتر بنانے کا خواہاں ہے اور وہ شام یا کسی عرب ملک میں فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوے کی دہائی سے جاری فرقہ وارانہ تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ تہران اور ریاض کے کشیدہ تعلقات ہیں جو کہ مبینہ طور پر ایسے انتہا پسندوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تین روزہ کانفرنس میں سفرا پاکستان کے علاقائی ممالک سے تعلقات کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دیں گے جس کی روشنی میں اسلام آباد سفارتکاری کو متوازن، موثر اور فعال بنانے کے لیے پالیسی میں ضروری رد و بدل بھی کر سکتا ہے۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان تعاون کے حوالے سے بھی خصوصی مشاورت کی جائے گی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تجارتی، سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے پر بھی بات ہو گی۔
اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی مشرق وسطیٰ منتقلی کے اعتبار سے بھی یہ اجلاس اہمیت رکھتا ہے۔
’’ایران اور عرب ممالک کے تعلقات میں کشیدگی، یہ بات واضح ہے کہ بہت حد تک پائی جاتی ہے اور پاکستان اسے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ تو شاید اس کانفرنس میں بھی بات ہو کہ کس طرح انہیں ایک پیج پر لایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ عسکریت پسندوں کا افغانستان سے مشرق وسطیٰ کا رخ کرنا وہاں صورتحال خراب کر سکتا ہے اور ’’پاکستان اپنے عرب دوستوں سے انہیں نمٹنے سے متعلق اپنے تجربات سے آگاہ کرنا چاہے گا‘‘۔
مشرق وسطیٰ کے سفرا کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے کہ جب حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا اپنا دورہ مکمل کیا اور وزیراعظم نواز شریف رواں ماہ تہران جارہے ہیں۔
معروف تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ خطے میں اثرورسوخ بڑھانے سے متعلق ایران اور سعودی عرب میں پائی جانے والی کشمکش پاکستان کے لیے کئی مسائل کا سبب ہے۔
’’ہماری خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے کہ کس طرح ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا جائے۔ اس وقت ایران کے ساتھ تعلقات میں شدید کھچاؤ ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے سے آپ نکلنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ایران سے بجلی درآمد پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو تعلقات بہتر تو تب ہوں گے جب کوئی مضبوط چیز دکھائیں گے۔‘‘
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ ریاض اور تہران سے اسلام آباد اپنے تعلقات مزید بہتر بنانے کا خواہاں ہے اور وہ شام یا کسی عرب ملک میں فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوے کی دہائی سے جاری فرقہ وارانہ تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ تہران اور ریاض کے کشیدہ تعلقات ہیں جو کہ مبینہ طور پر ایسے انتہا پسندوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔