رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان: تازہ کارروائی میں 13 'شدت پسند' ہلاک


آفات سے نمٹنے کے لیے علاقائی ادارے "پی ڈی ایم اے" کے مطابق بدھ تک نقل مکانی کر کے آنے والے چار لاکھ 77 ہزار 46 افراد کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ 77 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

آفات سے نمٹنے کے لیے علاقائی ادارے "پی ڈی ایم اے" کے مطابق بدھ تک نقل مکانی کر کے آنے والے 38 ہزار 943 خاندانوں کے چار لاکھ 77 ہزار 46 افراد کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے جن میں ایک لاکھ 95 ہزار 341 بچے بھی شامل ہیں۔

اُدھر اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان سے کچھ خاندان بغیر اندارج کے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو پہنچے ہیں جس کی وجہ سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے روپ میں شدت پسند بھی ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔

تاہم حکام کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس سے قبل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں شمالی وزیرستان سے نکلنے والے افراد کے کوائف کا مکمل اندارج اور شناخت کی جا رہی ہے۔

حکومت نے ان افراد کے لیے بنوں کے قریب ایک کیمپ بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اب تک صرف 28 خاندان ہی منتقل ہوئے ہیں جب کہ دیگر لوگ خیبر پختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں یا پھر کرائے کے جگہ لے کر قیام کر رہے ہیں۔

ریاستوں اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ تک ہو سکتی ہے اور حکومت نے ان افراد کی مدد کے لیے تمام انتظامات کر رکھے ہیں جب کہ ضرورت کے تحت مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ فوجی آپریشن جلد مکمل ہوگا اور نقل مکانی کرنے والے افراد بھی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔

"بنیادی طور پر دہشت گردی کو جڑ سے نکال کر پھینکنا ہے، یہ کوشش ہو گی کہ کم سے کم نقصان پر یہ چیز مکمل کی جائے۔ کسی مدت کا تعین تو نہیں کرسکتا لیکن ہمیں امید ہے کہ لمبے عرصے تک آپریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بہت جلد اس بات کا امکان پیدا ہو جائے گا یہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔"

15 جون کو فوج نے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف "ضرب عضب" کے نام سے بھرپور آپریشن شروع کیا تھا جس میں اب تک فضائی کارروائیوں پر انحصار کرتے ہوئے ازبک جنگجوؤں سمیت لگ بھگ تین سو شدت پسندوں کو ہلاک جب کہ ان کے زیر استعمال متعدد ٹھکانوں، مواصلاتی مرکز اور گولہ بارود کے ذخیرے کو تباہ کیا۔

بدھ کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں تازہ فضائی کارروائی میں 13 دہشت گرد مارے گئے جب کہ اُن کے پانچ ٹھکانوں کو بھی تباہ کیا گیا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق 12 شدت پسندوں نے ہتھیار پھینک کر خود کو حکام کے حوالے کر دیا۔

قبائلی علاقے میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کے سبب ہلاکتوں کی تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے اور ضرب عضب میں اب تک کارروائی کی معلومات صرف فوج کے بیانات کے ذریعے ہی سامنے آئی ہے۔

دفاعی مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے مقامی آبادی کی نقل مکانی کے بعد ہی فوج بھرپور انداز میں زمینی کارروائی شروع کر سکے گی اور اس تناظر میں لوگوں کا بروقت انخلا آپریشن کی کامیابی کے لیے سودمند ثابت ہو گا۔

ادھر عالمی ادارہ خوراک "ڈبلیو ایف پی" نے نقل مکانی کر کے آنے والوں کو راشن کی فراہمی شروع کر رکھی ہے۔ منگل کو بنوں میں راشن کی تقسیم کے دوران مبینہ بدانتظامی کی وجہ سے صورتحال کشیدہ ہو گئی اور اس دوران بے گھر ہونے والے افراد اور پولیس کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی۔

اسی تناظر میں راشن کی تقسیم کے لیے مزید تین پوائنٹس بنا دیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو بروقت غذائی اشیاء مہیا کی جاسکیں۔

دوسری طرح پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں نے ملک کے مخیر حضرات سے درخواست کی ہے کہ وہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے عطیات جمع کروائیں۔ وفاقی حکومت پہلے ہی ان افراد کی دیکھ بھال کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کا اعلان کر چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG