پاکستان میں غیر مسلم آبادی کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایات اور ان کے ازالے کے لیے حکومتی کوششوں کی خبریں تو سامنے آتی رہتی ہیں لیکن حال ہی میں وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف سے پیش کردہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں غیر مسلموں کے لیے حکومت کی مالی اعانت میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے۔
اس کی ایک وجہ غیرمسلموں کی فلاح و بہبود اور ایسے ہی دیگر معاملات سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہونا بتائی جاتی ہے جب کہ وفاقی حکومت کے مطابق وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے غیرمسلم پاکستانیوں کے مساوی حقوق یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کے اقدام کر رہی ہے۔
تاہم ان برادریوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدام کی ضرورت ہے جو تاحال ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
رواں سال حکومت نے مختلف مذاہب کی پیروکار پاکستانی برادریوں کے لیے پانچ مختلف تہوار منانے کا منصوبہ تیار کیا تھا لیکن ان میں سے بھائی فرقے کی عید رضواں کے علاوہ ہولی، ایسٹر، نوروز اور دیوالی کی سرکاری سرپرستی میں تقریبات منعقد نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجہ حکومت کے بقول ان ایام میں ملکی حالات تھے۔
پاکستان ہندوسکھ سوشل ویلفیئر کونسل کے صدر جگموہن اروڑا کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر مذاہب کے پاکستانیوں کے مذہبی تہوار قومی سطح پر منانے کے اقدام کرے تاکہ ان لوگوں میں پاکستانی قوم کا ایک حصہ ہونے کا جذبہ مضبوط ہو سکے۔
"ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پھر ایک قسم کا احساس کمتری تو پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔ عملی طور پر حکومت کی طرف سے ایسے پروگرام ترتیب دیے جانے چاہیئں کہ جس سے پتا چلے کہ واقعی وہ ہمیں تسلیم کر کے چل رہی ہےکہ ہم پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔"
مذہبی امور کے وزیر مملکت پیر امین الحسنات نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ماضی کی نسبت زیادہ کوششیں کر رہی ہے تاکہ پاکستانی معاشرے کی تمام برادریوں میں یکجہتی فروغ پا سکے۔
"ہم نے چاروں صوبوں کے مرکزی شہروں میں (غیرمسلموں کے) مذہبی تہواروں پر پروگرام ترتیب دینا شروع کیے ہیں اس کے علاوہ مختلف کانفرنسز میں بھی ہم ان کی شمولیت سے ہم آہنگی کی باتیں آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔"
تاہم جگموہن اروڑا کا کہنا تھا کہ مذہبی تقریبات کا دائرہ قومی سطح پر ہونا چاہیے تاکہ دیگر مذاہب کے پاکستانیوں کو ایک دوسرے کو جاننے کا موقع مل سکے۔
غیر مسلموں کی طرف سے ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ ان کے مذہبی تہواروں پر ملک میں سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کیا جائے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے اور ان تہواروں پر ان ہی مذاہب کے پیروکاروں کو تعطیل ہوتی ہے۔