قومی جوڈیشل کمیٹی کی ہدایت پر ملک بھر کے تمام اضلاع میں ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس نے کام شروع کر دیا ہے۔ یہ عدالتیں پہلے مرحلے میں قتل اور منشیات کے پرانے مقدمات کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گی اور کیس کو ہر صورت تین ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہوں گی۔
ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس کے قیام کا فیصلہ قومی جوڈیشل کمیٹی کے تحت گزشتہ ماہ کیا گیا تھا جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں۔
ان عدالتوں کے قیام کا بنیادی مقصد ضلعی عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ کم کرنا اور عوام کو فوری انصاف مہیا کرنا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ملک کے تمام 114 اضلاع میں ماڈل عدالتیں قائم کی گئی ہیں جن میں مقدمات کی سماعت شروع کر دی گئی ہے۔
وکلا کے تحفظات
لیکن وکلا رہنما اس خیال سے زیادہ متفق دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ ایڈووکیٹ کے مطابق ماڈل عدالتوں کے قیام سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم نہیں کیا جا سکتا۔ قلیل مدت میں انصاف کے تقاضے بھی پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ جب کہ کیس کی سماعت مقرر کرنے کے لئے وکلا سے وعدے کے باوجود مشاورت نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے دھمکی بھی دی کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو وکلا کے پاس ماڈل عدالتوں کے بائیکاٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد
پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس وقت 19 لاکھ سے زائد کیسز زیر التواء ہیں جن میں 38 ہزار سے زائد کیسز سپریم کورٹ میں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 17 ہزار، لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد، سندھ ہائی کورٹ میں 92 ہزار، پشاور ہائی کورٹ میں 29 ہزار اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 6 ہزار سے زائد کیسز شامل ہیں۔ جبکہ ضلعی عدالتوں میں بھی 14 لاکھ 58 ہزار سے زائد کیسز زیر سماعت ہیں۔ ججز کی کم تعداد اور مقدمات کی بھرمار کے باعث اکثر مقدمات کا فیصلہ ہونے میں برسوں اور بعض صورتوں میں کئی دہائیاں بھی لگ جاتی ہیں۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 37 ریاست کو اس کے شہریوں کے لئے سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن اس جانب ریاست کی توجہ کم ہی رہی ہے۔ تقریباً 20 سال سے شعبہ وکالت سے منسلک، سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن اور قانونی معاملات پر مختلف اخبارات میں کالم لکھنے والے بیرسٹر صلاح الدین احمد کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست آئین کے تحت عوام کو انصاف کی فراہمی میں زیادہ کامیاب نہیں رہی اور اس وقت بھی عدالتوں میں کئی کئی دہائیاں پرانے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین کے مطابق اس کے لئے عدالتوں کی تعداد بڑھانے، پولیس اور ججز کی ٹریننگ، انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ کرمنل پروسیجرل کوڈ، پاکستان پینل کوڈ اور قانون شہادت جیسے اہم قوانین کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق یہ قوانین فرسودہ ہو چکے ہیں اور خود عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین ایڈووکیٹ کے مطابق ماڈل عدالتوں کے قیام کا نظریہ اچھا تو ہے اور اس کا مقصد یہ دیکھنا لگتا ہے کہ آیا ہم روزانہ کی بنیاد پر مقدمات چلا سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ ایسا کرنا آسان نہیں۔ اس کے لئے پولیس کے ایسے اہل تفتیشی افسر کا ہونا ضروری ہے جو عدالت کو مقدمات کی تمام تر جزیات فوری فراہم کر سکے۔ لیکن ان کے خیال میں بڑے پیمانے پر یہ تجربہ فی الحال کامیاب ہونا مشکل ہے۔
ماڈل کورٹس روزانہ کی بنیاد پر اپنی کارکردگی کی رپورٹس متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کو بھجوانے کی پابند ہوں گی۔ ان عدالتوں میں سیشن ججز، جج کے فرائض انجام دیں گے اور یہ منصوبہ کامیاب ہونے پر مستقبل میں دیوانی، عائلی اور کرایہ داری کے معاملات کے حل کے لئے بھی ماڈل ٹرائل کورٹس کے قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔