الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سینیٹ یعنی پارلیمان کے ایوان بالا کے انتخابات دو مارچ کو ہوں گے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے کمیشن کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ کے 50 ارکان کی مدت 11 مارچ کو مکمل ہو رہی ہے اور ان نشستوں کے لیے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی 13 اور 14 فروری کو وصول کیے جائیں گے۔
مزید برآں اُمیدواروں کی حتمی فہرست 24 فروری کو جاری کی جائے گی جس کے بعد 2 مارچ کو پولنگ کا انعقاد ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان خورشید عالم نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مجموعی طور پر سینیٹ کی 54 نشتوں پر انتخابات ہوں گے کیونکہ 18ویں آئینی ترممیم کے تحت اس مرتبہ چار اقلیتی اراکین سینٹ بھی منتخب کیے جائیں گے۔
پاکستان کے ایوان بالا میں کل 100 نشتیں ہوتی ہیں لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد چار اقلیتی نشتوں کا اضافہ کیا گیا ہے جن کے لیے اُمیدوارں کا انتخاب بھی دو مارچ کو ہی کیا جائے گا۔ ایک سینیٹر چھ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتا ہے اور سینیٹ کی نصف نشتوں پر ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پارلیمان کے ایوان بالا میں حکمران پیپلز پارٹی کے 27 سینیٹرز ہیں جب کہ اُس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے 21، جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ کے 10، نواز شریف کی مسلم لیگ ن کے سات، ایم کیو ایم اورعوامی نیشنل پارٹی کے چھ، چھ ارکان ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کے آٹھ جبکہ چار آزاد سینیٹرز کے علاوہ بلوچستان نینشل پارٹی اور جماعت اسلامی کے پاس سینیٹ کی تین، تین نشتیں ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے دو جب کہ مقتول بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پاس سینیٹ میں ایک، ایک نشت ہے۔
انھوں نے کہا کہ اُمیدواروں کو اپنےکاغذات نامزدگی کے ہمراہ یہ حلفیہ بیان بھی داخل کرانا ہوگا کہ اُن کے پاس پاکستان کےعلاوہ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ہے کیونکہ دوسری صورت میں الیکشن کمیشن کے حال ہی میں نافذالعمل قوانین کی روشنی میں وہ پارلیمان کے کسی بھی ایوان کا انتخاب لڑنے کے اہل نہیں ہوں گے۔
ادھر سپریم کورٹ نے رائے دہندگان یا ووٹرز کی فہرستیں تیار کرنے کے لیے مزید وقت مانگنے کی الیکشن کمیشن کی درخواست کو ایک بار پھر مسترد کردیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر 23 فروری تک یہ فہرستیں تیار نہ ہوئیں تو ’’قانون حرکت میں آئے گا‘‘۔
چیف جسٹس کے بقول الیکشن کمیشن مسئلے کا حصہ ہے اور ووٹرز فہرستیں تیار کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ رکاوٹیں پیدا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کیے بغیر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانا آتا ہے۔
ووٹر فہرستوں پر حالیہ ہی میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ انتباہ بھی کیا تھا کہ اگر شفاف اور غلطیوں سے پاک فہرستوں کے بغیر پاکستان میں آئندہ عام انتخابات ہوئے تو یہ ملک کو افراتفری سے دوچار کر سکتے ہیں۔