رسائی کے لنکس

کرونا وبا: پاکستان میں حالات اس قدر جلد معمول پر کیسے آ گئے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

برطانیہ کے نامور جریدے 'دی اکنامسٹ' نے حال ہی میں کرونا وائرس کے بعد دوبارہ کامیابی سے معمولات زندگی بحال کرنے والے 50 ملکوں کی فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔

منگل کو جاری ہونے والے نارملسی انڈیکس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے کئی ملک اب بھی معمول پر نہیں آسکے اور انہیں معمولات بحال کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔

البتہ پاکستان کو فہرست میں ان ملکوں کی صف میں رکھا گیا ہے جو کرونا کے اثرات سے نکل کر معمولاتِ زندگی بحال کر چکے ہیں۔

اس فہرست میں شامل 50 ملکوں کے کرونا وبا کے دوران اور اس کے اثرات سے باہر نکلنے کے لیے دفاتر میں جاری کام، شہریوں کے سفر کرنے سمیت کھیلوں کی سرگرمیوں کے انعقاد کے علاوہ دیگر عوامل کو پرکھا گیا ہے۔

اکنامسٹ نارملسی انڈیکس کے مطابق ہانگ کانگ 96 اعشاریہ تین کے اسکور کے ساتھ پہلے، نیوزی لینڈ 87 اعشاریہ آٹھ کے ساتھ دوسرے اور پاکستان 84 اعشاریہ چار کے اسکور کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

بھارت اس فہرست میں 48 ویں نمبر پر جب کہ چین 19 ویں اور امریکہ کا نمبر 20 ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں برطانوی جریدے کی اس رپورٹ کا ایک عکس شئیر کیا ہے۔ انہوں نے کرونا وبا کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی اپنانے پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی ) کے ارکان، سماجی خدمات کے لیے قائم 'احساس پروگرام' اور اسٹیٹ بینک کو مبارک باد پیش کی ہے۔

'دی اکنامسٹ' کی رپورٹ میں 50 ملکوں کی معمول کی زندگی کی جانب لوٹنے سے متعلق آٹھ عوامل کو پرکھا گیا ہے جس کی روشنی میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

ان عوامل میں لوگوں کے گھروں میں رہنے اور دفتری اوقات کار، گھر سے باہر رہنے کا دورانیہ، بازاروں کا کھلنا، پبلک ٹرانسپورٹ، روڈ ٹریفک کی صورتِ حال، پروازوں کی بحالی، تفریح کی غرض سے گھر سے باہر جانے اور کھیلوں کے مقابلوں میں حاضرین کی شرکت شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بحال ہو چکا ہے، لوگ بھرپور طریقے سے گھر کے باہر بھی وقت گزار رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کا سب سے کم اسکور اس وقت اندرون و بیرون ملک پروازوں کی بحالی سے متعلق رہا ہے۔

دوسری جانب ملک کے مرکزی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کرونا وبا کے دوران ملک کے مالی نظام نے چیلنجز کے باوجود لچک کا مظاہرہ کیا اور مشکل حالات میں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک اور معیشتوں کے مقابلے میں پاکستان میں کرونا وائرس کی لہروں کے اثرات نسبتاً کم رہے۔ مالی سال 21-2020 میں پیداواری خسارہ 0.47 فی صد رہا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ملکوں میں پست ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔

معاشی امور کے ماہر اور نجی کمپنی 'ٹینجینٹ کیپیٹل ایڈوائزرز' کے چیف آپریٹنگ افسر مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ کرونا وبا سے جلد نکلنے میں ملک کی معاشی اور معاشرتی ساخت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اب تک سیاحتی مرکز میں تبدیل نہیں ہو سکا جہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہوں یا ہوٹل ہوں جب کہ پاکستان سے بھی لوگ دنیا بھر میں گھومنے یا مذہبی سیاحت کے لیے نہیں گئے۔ ان کے بقول یہ وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں کی بڑی تعداد کرونا کے پھیلاؤ سے محفوظ رہی۔

مزمل اسلم کہتے ہیں ملک کی ایک بڑی آبادی اب بھی دیہات میں آباد ہے جہاں شہروں کی نسبت آبادی کی کثافت اور بھی کم ہے۔ یہ وجہ بھی کرونا سے کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے معاون رہا۔

کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں حکومتی کردار سے متعلق سوال پر مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت نے سائنسی بنیاد پر حکمتِ عملی اپنائی اور حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر پالیسی ترتیب دی جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔

سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کرونا وبا کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ معاشی نمو 68 سال کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی جب کہ ادارہ شماریات کی اپنی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

حفیظ پاشا کہتے ہیں کرونا کے بعد معمولاتِ زندگی بحال ہونے کے باوجود غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بدترین معاشی صورتِ حال میں یہ کہنا مناسب نہیں کہ پاکستان کو کرونا وبا کی وجہ سے کسی قسم کی سنگین صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

کرونا کی موجود صورتِ حال

اگرچہ حکام اور طبی شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق ملک میں کرونا کے کیسز میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن اس کے باوجود وبا کی چوتھی لہر کا خدشہ موجود ہے۔

حکام کے مطابق حفاظتی انتظامات کو بروئے کار لائے جانے کے ساتھ ویکسی نیشن پر اب بھی زور دیا جارہا ہے۔ کرونا کی تشخیص کے لیے جاری ٹیسٹ میں مثبت کیسز کی موجودہ شرح تین سے چار فی صد کے قریب بتائی ہے جب کہ ایک کروڑ 86 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین بھی لگائی جاچکی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں کرونا وبا سے مجموعی طور پر 22 ہزار 493 افراد ہلاک اور نو لاکھ 10 ہزار سے زیادہ وائرس کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG