اسلام آباد —
گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی سید مہدی شاہ نے بتایا ہے کہ دیا میر میں دہشت گردوں کے حملے میں 10 غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت سے متعلق تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ایک بیان میں مہدی شاہ نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد سے تفتیش جاری ہے جن سے کئی اہم معلومات بھی ملی ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے مقامی امن جرگے کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ پر گزشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب گلگت اسکاؤٹس کی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے 10 غیر ملکی سیاحوں اور اُن کے ایک پاکستانی گائیڈ کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو کا تعلق چین سے جب کہ ایک چینی نژاد امریکی شہری اور ایک نیپال کا باشندہ تھا۔ دیگر پانچ غیر ملکیوں میں سے اکثریت کا تعلق یوکرائن سے بتایا گیا ہے۔
غیر ملکی کوہ پیماؤں پر حملے کے بعد حکومت نے نانگا پربت بیس کیمپ کے قریب ایک خصوصی سیل بھی بنا دیا ہے جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔
کوہ پیماؤں کی ایک نمائندہ تنظیم الپائن کلب آف پاکستان کے ترجمان قرار حیدری ان دنوں گلگت بلتستان میں ہیں اور اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ نانگا پربت کے علاقے میں موجود تیس سے زائد غیر ملکی سیاحوں کو اسکردو اور ہنزہ منتقل کر دیا ہے جہاں سے اُنھیں اسلام آباد روانہ کیا جا رہا ہے۔
’’نانگا پربت میں سرچ آپریشن جاری ہے اور حفاظتی اقدامات کے پیش نظر غیر ملکی سیاحوں کو نیچے لے آئے ہیں… نانگا پربت پر موسم گرما کے لیے مہم جوئی بند کر دی گئی ہے۔‘‘
قرار حیدری نے بتایا کہ نانگا پربت اور پاکستان میں واقع دیگر پہاڑی چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے دنیا بھر سے کوہ پیما جون میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ حالیہ حملے سے ناصرف ملک میں سیاحت کا شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ جس علاقے میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات ہوں گے۔
’’اس علاقے میں جو ہوٹل مالکان ہیں اور گائیڈ ہیں اُن پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ وہ لوگ جو پورا سال اسی انتظار میں رہتے اور اسی پر انحصار کرتے تھے، تو وہ بہت پریشان ہیں۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کہہ چکے ہیں کہ اس حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سیاحوں پر اس حملے کی نا صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صف اول کی تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمانی قراردادوں اور دیگر ذرائع سے ایسے سنگین حملوں کی مذمت اہمیت کی حامل ہے مگر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ایک بیان میں مہدی شاہ نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد سے تفتیش جاری ہے جن سے کئی اہم معلومات بھی ملی ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے مقامی امن جرگے کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ پر گزشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب گلگت اسکاؤٹس کی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے 10 غیر ملکی سیاحوں اور اُن کے ایک پاکستانی گائیڈ کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو کا تعلق چین سے جب کہ ایک چینی نژاد امریکی شہری اور ایک نیپال کا باشندہ تھا۔ دیگر پانچ غیر ملکیوں میں سے اکثریت کا تعلق یوکرائن سے بتایا گیا ہے۔
غیر ملکی کوہ پیماؤں پر حملے کے بعد حکومت نے نانگا پربت بیس کیمپ کے قریب ایک خصوصی سیل بھی بنا دیا ہے جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔
کوہ پیماؤں کی ایک نمائندہ تنظیم الپائن کلب آف پاکستان کے ترجمان قرار حیدری ان دنوں گلگت بلتستان میں ہیں اور اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ نانگا پربت کے علاقے میں موجود تیس سے زائد غیر ملکی سیاحوں کو اسکردو اور ہنزہ منتقل کر دیا ہے جہاں سے اُنھیں اسلام آباد روانہ کیا جا رہا ہے۔
’’نانگا پربت میں سرچ آپریشن جاری ہے اور حفاظتی اقدامات کے پیش نظر غیر ملکی سیاحوں کو نیچے لے آئے ہیں… نانگا پربت پر موسم گرما کے لیے مہم جوئی بند کر دی گئی ہے۔‘‘
قرار حیدری نے بتایا کہ نانگا پربت اور پاکستان میں واقع دیگر پہاڑی چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے دنیا بھر سے کوہ پیما جون میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ حالیہ حملے سے ناصرف ملک میں سیاحت کا شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ جس علاقے میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات ہوں گے۔
’’اس علاقے میں جو ہوٹل مالکان ہیں اور گائیڈ ہیں اُن پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ وہ لوگ جو پورا سال اسی انتظار میں رہتے اور اسی پر انحصار کرتے تھے، تو وہ بہت پریشان ہیں۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کہہ چکے ہیں کہ اس حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سیاحوں پر اس حملے کی نا صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صف اول کی تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمانی قراردادوں اور دیگر ذرائع سے ایسے سنگین حملوں کی مذمت اہمیت کی حامل ہے مگر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔