رسائی کے لنکس

سہ فریقی کمیشن میں ’’حوصلہ افزا‘‘ بات چیت


افغانستان میں بین الاقوامی سکیورٹی فورس (ایساف) کےامریکی کمانڈرجنرل جان ایلن نے پاکستانی اور افغان فوجی رہنماؤں کےساتھ اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت کو’’تعمیری اورحوصلہ افزا‘‘ قراردیا ہے۔

تینوں فریقوں پرمشتمل سہ فریقی کمیشن کا اجلاس اتوارکواسلام آباد میں ہواجس میں افغان وفد کی نمائندگی نیشنل آرمی کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی اور پاکستانی وفد کی قیادت فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کی۔

اجلاس کےبعد کابل سےجاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن کا اجلاس افغانستان میں بین الاقوامی برادری کی مصروفیت کا ایک اہم حصہ ہے، جس کا مقصد سلامتی اور استحکام کی کوششوں میں افغانوں کی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں تعمیر نو اور ترقی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے۔

’’تقریباً ایک سال کےعرصے میں اِس نوعیت کے یہ پہلےمذاکرات ہیں جن میں کمانڈروں اورتدبیرائی، آپریشنل اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل اُمور بشمول سرحد کے دونوں جانب ہم رابطگی سے متعلق اسٹاف کو آپس میں خیالات کے تبادلے کا موقع ملا۔ اس بات چیت نے مستقبل میں تسلسل کےساتھ مذاکرات کرنے کے حالات بھی پیدا کیے ہیں۔‘‘

بیان میں کہا گیا ہےکہ ایساف اور افغان وفد کی پاکستان سےرخصتی کے وقت جنرل ایلن کا کہنا تھا کہ اُن کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ ہوئی ہے۔

’’ان اجلاسوں سے ناصرف تمام فریقوں نے اہم موضوعات اور مسائل کو حل کرنے کی خواہش کی تجدید کا اشارہ دیا ہے، بلکہ اس بات پربھی اتفاق کیا گیا کہ ایک پُرامن، متستحکم اور خوشحال افغانستان کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے بھی ایسے اجلاس اہم ہیں، تاکہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہ بن سکے۔‘‘

تینوں فریقوں کے درمیان فوجی رابطوں میں تیزی کے بعد اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ نیٹو کی سپلائی لائن بحال کرنے کے فیصلے سے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

نیٹو سپلائی لائن اور امریکہ سے تعلقات کی بحالی پر صلاح و مشورے کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے منگل کو اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ توقع ہے کہ اجلاس میں نیٹو کانفرنس میں شرکت کرنے یا نا کرنے کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا جو 20 اور 21 مئی کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ہو رہی ہے۔

ادھر امریکی اور پاکستانی عہدیداروں کے درمیان پارلیمان کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کے تعلقات پر بات چیت کا سلسلہ اسلام آباد میں جاری ہے۔ ان مذاکرات میں نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے لیے رسد کے قافلوں پر پاکستان کی جانب سے بھاری محصولات کے نفاذ کی تجویز پر طرفین کے درمیان اختلافات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔

امریکہ یا پاکستان نے ان مذاکرات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو باضابطہ طور پر کوئی معلومات اب تک جاری نہیں کی ہیں البتہ گزشتہ دنوں وزیر مملکت برائے مواصلات دوست محمد مزاری نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ نیٹو قافلوں میں شامل ہر کنٹینر پر حکومت نے تقریباً دو لاکھ 25 ہزار روپے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دے رکھی ہے۔

’’پچھلے دس سالوں سے ہماری (قومی شاہراہوں کو نیٹو قافلوں) سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے ہیں اس کے بارے میں ہم نے تحریری طور پر وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو بتایا جا چکا ہے۔ سروے کے بعد ہم نے جو ابھی کہا ہے کہ فی کنٹینر 2500 ڈالر ٹیکس ان سے لیں گے۔‘‘

مغربی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی سفارشات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی سے متعلق مذاکرات خاصے مشکل ہو گئے ہیں جب کہ امریکی عہدیدار نیٹو قافلوں پر بھاری محصولات کی ادائیگی پر بھی تحفظات رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG