اسلام آباد —
وزیراعظم نوازشریف پاکستان کے اہم تجارتی و اقتصادی شراکت داروں سے تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں منگل کو تین روزہ سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچے۔
دفترخارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق اس دورے میں وزیراعظم اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں، کاروباری و سرمایہ کار شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات، مالیاتی و اقتصادی ترقی کے شعبوں میں تعاون، تعلیم و صحت، دفاع و سلامتی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون پر مشتمل اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں پیش رفت کا جائزہ لیے جانے کی بھی توقع ہے۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس دورے کو خطے کی سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں تو شاید کوئی غیر معمولی حیثیت حاصل نہ ہو لیکن جب دونوں وزرائے اعظم کے درمیان تبادلہ خیال ہو گا تو اس میں سلامتی کے امور بھی زیر بحث آسکتے ہیں۔
"برطانوی وزیراعظم سے جو گفتگو ہے وہ بھی بنیادی طور پر تجارت اور سماجی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بارے میں نظر آتی ہے۔ لیکن ظاہر جب گفتگو ہوگی تو اس میں سکیورٹی کے معاملات، طالبان سے گفتگو کی جو حکومتی کوششیں ہیں وہ بھی آسکتی ہیں لیکن توجہ کا مرکز اقتصادی معاملات ہی نظر آتا ہے۔"
گزشتہ سال مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف سرکاری اور نجی دوروں پر متعدد بار برطانیہ جا چکے ہیں جس میں سہ فریقی اور اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے جانا بھی شامل ہے۔
اسی دوران گزشتہ سال جون میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے علاوہ مختلف اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت خطے کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے تعلقات کو فروغ دے کر اقتصادی و تجارتی تعاون میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔
وہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی خاصے سرگرم رہے ہیں اور مختلف ممالک کے دوروں کے موقع پر وہ پاکستان میں کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروانے کا ذکر کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے آئے ہیں۔
دفترخارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق اس دورے میں وزیراعظم اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں، کاروباری و سرمایہ کار شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات، مالیاتی و اقتصادی ترقی کے شعبوں میں تعاون، تعلیم و صحت، دفاع و سلامتی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون پر مشتمل اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں پیش رفت کا جائزہ لیے جانے کی بھی توقع ہے۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس دورے کو خطے کی سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں تو شاید کوئی غیر معمولی حیثیت حاصل نہ ہو لیکن جب دونوں وزرائے اعظم کے درمیان تبادلہ خیال ہو گا تو اس میں سلامتی کے امور بھی زیر بحث آسکتے ہیں۔
"برطانوی وزیراعظم سے جو گفتگو ہے وہ بھی بنیادی طور پر تجارت اور سماجی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بارے میں نظر آتی ہے۔ لیکن ظاہر جب گفتگو ہوگی تو اس میں سکیورٹی کے معاملات، طالبان سے گفتگو کی جو حکومتی کوششیں ہیں وہ بھی آسکتی ہیں لیکن توجہ کا مرکز اقتصادی معاملات ہی نظر آتا ہے۔"
گزشتہ سال مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف سرکاری اور نجی دوروں پر متعدد بار برطانیہ جا چکے ہیں جس میں سہ فریقی اور اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے جانا بھی شامل ہے۔
اسی دوران گزشتہ سال جون میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے علاوہ مختلف اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت خطے کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے تعلقات کو فروغ دے کر اقتصادی و تجارتی تعاون میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔
وہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی خاصے سرگرم رہے ہیں اور مختلف ممالک کے دوروں کے موقع پر وہ پاکستان میں کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروانے کا ذکر کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے آئے ہیں۔