پاکستان نے امریکہ، بھارت اور افغانستان کی شمولیت سے ایک نئے مجوزہ مذاکراتی گروپ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کی تشکیل کی ضرورت سے آگاہ نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے رواں ہفتے دورہ بھارت کے دوران نئی دہلی میں اس سہ فریقی گروپ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نمائندے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں بات چیت کریں گے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں قیام امن کی حمایت کے عزم پر قائم ہے اور اس کے لیے چار فریقی گروپ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے آگاہ ہے لیکن اس کے مندرجات سے واقف نہیں۔
"ہمیں نہیں معلوم کہ اس (سہ فریقی گروپ) کی کیا ضرورت ہے، اس مجوزہ گروپ سے کیا حاصل کرنے کی توقع ہے، اس کا دائرہ کار اور طریقہ کار کیا ہوگا۔ جہاں تک افغانستان میں امن کا تعلق ہے تو میں یہ دہراتا چلوں کہ افغانستان میں امن پاکستان اور خطے میں امن کے مفاد میں ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے امن عمل کی حمایت کے عزم پر قائم ہے۔"
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے عمل کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ دسمبر میں اسلام آباد میں 'ہارٹ آف ایشیا' کانفرنس کے موقع پر پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کی شمولیت سے چار فریقی گروپ تشکیل دیا گیا تھا جس کے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں لیکن مصالحتی عمل کا سلسلہ بحال نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے ایسی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں کہ جن میں کہا گیا کہ امریکہ، افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے۔
تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ انھیں امید ہے کہ مجوزہ سہ فریقی گروپ کی تشکیل سے پاکستان خود کو بحیثیت ملک تنہا تصور نہیں کرے گا۔
بھارت نے افغانستان میں قابل ذکر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہاں بحالی و تعمیر نو کے کاموں میں بھی اس کا خاصا عمل دخل ہے۔ پاکستان یہ الزام عائد کرتا ہے کہ بھارت اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا ہے لیکن نئی دہلی ان دعوؤں کو مسترد کر چکا ہے۔
حال ہی میں امریکہ اور بھارت کے درمیان مختلف شعبوں کے علاوہ دفاعی شعبے میں تعاون بھی فروغ پایا ہے اور رواں ہفتے ہی دونوں ملکوں نے ایک 'لاجسٹک ایکسچینج' نامی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت امریکی اور بھارتی افواج مرمت اور سامان رسد کی ترسیل کے لیے ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کرسکیں گی۔
اس معاہدے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے کہا کہ ان کا ملک چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں اسٹریٹیجک توازن نہ بگاڑ کا باعث نہ بنے۔
"یہ دو خود مختار ملکوں کے درمیان معاہدہ ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ یہ خطے میں امن و استحکام میں کردار ادا کرے گا، پاکستان یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس طرح کے معاملات سے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک عدم توازن نہ ہو اور اسلحے کی دوڑ شروع نہ ہو۔"