پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے حزبِ مخالف کے رہنما عمران خان اور شیخ رشید کی طرف سے پارلیمان کے متعلق نامناسب زبان استعمال کرنے پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے جب کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ پارلیمان کے لیے "لعنت" سے زیادہ سخت لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے لاہور میں بدھ کی شب ہونے والے ایک جلسے میں پارلیمان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسی پارلیمنٹ پر ’لعنت‘ بھیجتے ہیں جو ایک مجرم کو پارٹی کا سربراہ بنائے۔
موجودہ پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے عدالت سے نااہل قرار پانے والے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دوبارہ اپنی جماعت کا صدر بننے کی راہ ہموار کی تھی جس پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں سخت تنقید کرتی رہی ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے پارلیمنٹ سے متعلق اپنے الفاظ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ مزید سخت الفاظ استعمال کرنا چاہتے تھے۔
’’دیکھیں لعنت والا جو لفظ میں نے استعمال کیا یہ میں نے بڑا ہلکا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ آپ شکر کریں۔ میں نے یہی کیا ہے۔ میں جو لفظ استعمال کرنا چاہتا تھا وہ سخت ہیں۔ اس سے ان کو شکر کرنا چاہیے۔ میں نے کنٹرول کیا اپنے آپ کو۔‘‘
اس سے قبل جمعرات کو قومی اسمبلی نے عمران خان کے الفاظ کے خلاف ایک مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔
ایوان کے اجلاس میں وزیرِ مملکت بلیغ الرحمٰن نے مذمتی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید نے ملک کے معتبر آئینی ادارے کی توہین کی جس سے پاکستانی عوام کی تذلیل ہوئی ہے۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کو کسی دوسرے نظام کی ضرورت نہیں اور پارلیمان جمہور کی نمائندہ ہے۔
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ سمیت بعض دیگر ارکانِ اسمبلی نے بھی عمران خان کے پارلیمنٹ سے متعلق بیان پر تنقید کرتے ہوئے اُنھیں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر سیاست دان پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال نہیں کریں گے تو کسی اور سے اس کے احترام کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
اُنھوں نے عمران خان کے بارے میں کہا کہ وہ اسی قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان بننا چاہتے ہیں اور اسی کے بارے میں ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں۔
عمران خان نے لاہور کے جلسے میں یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اُن کی جماعت اسمبلیوں سے استعفی دینے پر غور کر سکتی ہے۔ جب کہ تحریکِ انصاف کے اتحادی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے جلسے سے خطاب کے دوران قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کی پارلیمنٹ پر تنقید اور ممکنہ طور پر استعفٰی دینے کے بیان پر قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے بھی کڑی تنقید کی۔
’’تکلیف ہوتی ہے جب یہ الفاظ سنتے ہیں۔ آپ استعفیٰ دیتے ہیں۔ صدا دے دیں ہم استعفیٰ دیتے ہیں۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر ہم ادھر آئیں گے، پھر باتیں کریں گے۔ مگر یہ چھتری (پارلیمنٹ) حفاظت ہے ہماری۔ اس کے بعد کیا ہے؟ اس کے بعد کیا آپ ڈکٹیٹر کو بلانا چاہتے ہیں۔‘‘
اس سے قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ دوسروں کے رویے پر تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن اُن کے بقول پیپلر پارٹی پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
واضح رہے کہ طاہر القادری کی جماعت 'پاکستان عوامی تحریک' کی دعوت پر متحدہ اپوزیشن کا ایک جلسہ بدھ کو لاہور میں ہوا تھا جس میں 2014ء میں ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے 14 کارکنوں کے قتل پر وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف اور وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں حزبِ مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی قیادت شریک تھی جن کے درمیان ماضی میں خاصے اختلافات رہے ہیں۔
تاہم عمران خان اور آصف زرداری بیک وقت اسٹیج پر موجود نہیں تھے بلکہ سابق صدر زداری کے جلسہ گاہ سے چلے جانے کے بعد عمران خان وہاں پہنچے تھے۔