اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے سویلین خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی استعداد کار میں اضافے کے لیے نئی بھرتیوں کے علاوہ جدید آلات کے حصول کی منظوری دی ہے۔
جون میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے جمعہ کو پہلی مرتبہ انٹیلی جنس بیورو کے اسلام آباد میں صدر دفتر کا دورہ کیا۔
اس موقع پر متعلقہ حکام نے وزیرِ اعظم کو سلامتی سے متعلق داخلی و خارجی اُمور کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے اس ادارے کی کوششوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔
سرکاری بیان کے مطابق انٹیلی جنس بیورو کی ذمہ داریوں اور سلامتی سے متعلق صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی استعداد میں اضافے کے لیے مختلف تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے انٹیلی جنس بیورو کو حکومتی اداروں میں نئی بھرتیوں پر عائد پابندی سے مبرا قرار دینے کا اعلان کیا۔
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں سر فہرست ہے اور نواز شریف اپنی جماعت کی حکمتِ عملی کے تحت انتہا پسند عناصر کو بھی امن مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے تاحال اس پیشکش پر اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن اس تنظیم میں شامل ایک گروہ ’تحریک طالبان پنجاب‘ کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے بیان میں حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
بیان میں عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ حکومت نے یہ پیشکش کرکے ’’سیاسی بلوغت‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور یہ کہ اگر موجودہ حکومت معاملات کو سلجھانے میں سنجیدہ ہے تو ایسی کوئی وجہ نہیں جس کی بنا پر ’’جہادی عناصر‘‘ اس کا مثبت جواب نا دیں۔
تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ شدت پسندوں سے امن مذاکرات کی کوششیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں، لیکن اکثر و بیشتر امن معاہدوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران مسلم لیگ (ن) کی پیشکش ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
’’ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا کہ بات چیت کس بنیاد پر ہوگی، حکومت نے کوئی شرائط پیش نہیں کی ہیں ... اس لیے فی الحال یہ سب باتیں ہوا کے اندر ہیں اور جب ان کی کچھ شکل نکلے گی تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ابھی ہمیں اس کی کوئی عملی شکل نظر نہیں آ رہی ہے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے خواہ کوئی بھی راستہ اپنایا جائے، کامیابی کا انحصار حکمتِ عملی پر یکسوئی کے ساتھ عمل درآمد پر ہوگا۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے رواں ہفتے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں لیکن ’’دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جائے جس میں معصوم انسانی جانیں کم سے کم ضائع ہوں‘‘۔
جون میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے جمعہ کو پہلی مرتبہ انٹیلی جنس بیورو کے اسلام آباد میں صدر دفتر کا دورہ کیا۔
اس موقع پر متعلقہ حکام نے وزیرِ اعظم کو سلامتی سے متعلق داخلی و خارجی اُمور کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے اس ادارے کی کوششوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔
سرکاری بیان کے مطابق انٹیلی جنس بیورو کی ذمہ داریوں اور سلامتی سے متعلق صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی استعداد میں اضافے کے لیے مختلف تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے انٹیلی جنس بیورو کو حکومتی اداروں میں نئی بھرتیوں پر عائد پابندی سے مبرا قرار دینے کا اعلان کیا۔
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں سر فہرست ہے اور نواز شریف اپنی جماعت کی حکمتِ عملی کے تحت انتہا پسند عناصر کو بھی امن مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے تاحال اس پیشکش پر اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن اس تنظیم میں شامل ایک گروہ ’تحریک طالبان پنجاب‘ کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے بیان میں حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
بیان میں عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ حکومت نے یہ پیشکش کرکے ’’سیاسی بلوغت‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور یہ کہ اگر موجودہ حکومت معاملات کو سلجھانے میں سنجیدہ ہے تو ایسی کوئی وجہ نہیں جس کی بنا پر ’’جہادی عناصر‘‘ اس کا مثبت جواب نا دیں۔
تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ شدت پسندوں سے امن مذاکرات کی کوششیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں، لیکن اکثر و بیشتر امن معاہدوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران مسلم لیگ (ن) کی پیشکش ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
’’ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا کہ بات چیت کس بنیاد پر ہوگی، حکومت نے کوئی شرائط پیش نہیں کی ہیں ... اس لیے فی الحال یہ سب باتیں ہوا کے اندر ہیں اور جب ان کی کچھ شکل نکلے گی تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ابھی ہمیں اس کی کوئی عملی شکل نظر نہیں آ رہی ہے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے خواہ کوئی بھی راستہ اپنایا جائے، کامیابی کا انحصار حکمتِ عملی پر یکسوئی کے ساتھ عمل درآمد پر ہوگا۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے رواں ہفتے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں لیکن ’’دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جائے جس میں معصوم انسانی جانیں کم سے کم ضائع ہوں‘‘۔