پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے عدالتوں کی طرف سے دہشت گردی کے جرائم میں موت کی سزائیں پانے والے مجرموں کی سزا پر عملدرآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان پشاور میں اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے ایک روز بعد کیا گیا۔
اس حملے میں 132 بچوں کی ہلاکت پر پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کے مطالبات نے زور پکڑا اور بدھ کو پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم نے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائیاں تیز ہونی چاہیئں اور سخت گیر دہشت گردوں کے خلاف قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے جس سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکیں۔
پاکستان میں تقریباً آٹھ ہزار سے زائد قیدی سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر ہیں جن میں سے تقریباً دس فیصد ایسے ہیں جنہیں دہشت گردی کے جرائم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
ملک میں 2008ء کے بعد سے کسی بھی قیدی کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور یورپی یونین اس سزا کو ختم کرنے پر زور دیتی رہی ہیں۔
وزیراعظم کے فیصلے پر پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا موقف اب بھی وہی ہےا ور اس قسم کے اقدام سے معاملے کا حل ممکن نہیں۔
"اس میں بہت ساری وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں اس کی حمایت نہیں کی جارہی، زیادہ سے زیادہ ملک موت کی سزا کو ختم کر رہے ہیں۔ اس میں ٹھیک ہے گنجائش ہوتی ہے، غلط فیصلے کے علاوہ جو سز ا کے ڈر کی وجہ سے جرم نہ کرنے کی بات ہے جن ملکوں میں موت کی سز ا نہیں ہوتی وہاں جرائم کی شرح کم ہے اور اس کے متبادل عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے ، قید بامشقت کی سزا ہو سکتی ہے اور اصلاح پروگرام بھی ہو سکتا ہے"۔
تاہم قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے قانون و انصاف و انسانی حقوق کے چیئرمین چودھری بشیر ورک کہتے ہیں کہ کسی بھی مجرم کو موت کی سزا بہت سے عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد دی جاتی ہے اور پاکستان کو درپیش مخصوص حالات میں ان سزاؤں پر عملدرآمد ضروری ہے۔
" ہمارے جو مخصوص حالات ہیں اس کے پیش نظر اگر چار مرحلوں میں جا کر عدالت فیصلہ کرتی ہے اور رحم کی اپیل بھی اس کی نامنظور ہو جاتی ہے اور جب تک یہاں سزا دینے کا مقصد لوگوں کو جرم سے روکنا نہ ہو تو اس قسم کی واقعات بڑھتے چلے جائیں گے۔ اگر سزائے موت نہ دی جائے تو یہ بڑا آسان طریقہ ہے میں دیہاتی پس منظر میں بات کرتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک قتل کرنے کے بعد قید ہی ہے تو سزا (موت ) کا ڈر ضروری ہے سزا کا مقصد لوگوں کو جرائم سے روکنا اور اصلاح بھی ہے"۔
اس اعلان کے بعد ایسے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جائے گا جن کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں تمام عدالتوں سے مسترد ہو چکی ہیں۔
2007ء میں 110 ملکوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے سزائے موت ختم کرنے کی قرارداد کی توثیق کی تھی جس کے بعد 30 ایشیائی ممالک سمیت 150 ملکوں میں سزائے موت کے قانون کو ختم کیا جاچکا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون اور عدالتی کارروائیوں میں موجود سقم کو دور کیے بغیر مقدمات کی شفافیت پر کئی سوالیہ نشان اٹھے ہیں اس لیے اس جانب توجہ دینے کی بھی خاص ضرورت ہے۔