پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن اور افغان تنازع کے سیاسی تصفیے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
وزیرِ اعظم نے یہ بات ترک ٹی وی چینل 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو پیر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
انٹرویو میں عمران خان نے امریکہ، چین اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور اپنی حکومت کو درپیش اقتصادی مشکلات کے بارے میں بھی بات کی۔
افغانستان کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ہے اور ان کے بقول یہ بات خوش آئند ہے کہ اب ہر کوئی اس بات کو تسلیم کرتا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان سے 'ڈو مور' کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کے بقول پاکستان اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا بلکہ امن میں اتحادی بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان تنازع کے سیاسی تصفیے کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر طالبان کو امریکہ اور افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے مخصوص تجارتی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے جب انٹرویو میں وزیرِ اعظم پاکستان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان چین کی طرف سے ایغور مسلمانوں کو کیمپوں میں رکھنے کے معاملے پر تنقید نہیں کرے گا، تو عمران خان نے کہا کہ انہیں اس معاملے کا علم نہیں۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو درپیش مشکلات میں چین نے آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے مختلف طریقوں سے پاکستان کی معاونت کی ہے۔ لیکن ان کے بقول وہ ان سب کی تفصیل نہیں بتا سکتے کیونکہ چینی چاہتے ہیں کہ "ہم ان کو صیغۂ راز میں رکھیں کیوں کہ وہ رازداری سے کام کرتے ہیں اور کھلے عام معاملات پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔"
تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ایغور مسلمانوں کے ساتھ چین میں مبینہ خراب سلو ک جاری رہتا ہے تو کیا وہ چین پر تنقید کریں گے، عمران خان نے کہا کہ اگر اس بات کی کبھی ضرورت پیش آئی تو وہ چین کے ساتھ یہ معاملہ مختلف انداز میں اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر رازداری سے بات کریں گے۔ "میں اس پر کھلے عام بات نہیں کروں گا کیونکہ چینی بھی کھلے عام بات نہیں کرتے ہیں۔"
انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ چین کے نیم خود مختار مغربی علاقے سنکیانگ میں آباد ایغور نسل کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو تعلیم و تربیت کے نام پر چین کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کیمپوں اور مراکز میں حراست میں رکھا جاتا ہے۔ چین اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔
ترک ٹی وی کے ساتھ انٹرویو کے دوران پاک بھارت تعلقات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان بھارت کے وزیرِ اعظم کو یہ باور کر اچکا ہے کہ اگر بھارت امن کی جانب ایک قدم اٹھائے گا تو پاکستان دو قدم اٹھائے گا۔
لیکن ان کے بقول بدقسمی کی بات ہے کہ بھارت متعد بار پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کر چکا ہے اور ان کے بقول اس کی وجہ بھارت میں رواں سال اپریل میں ہونے والے عام انتخابات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مخالف بیانے کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت 'بی جے پی' ووٹوں کے حصول کے لیے ابھارتی ہے۔