وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے، جن میں پاکستان سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے، ’’کہیں زیادہ ٹھوس کوشش‘‘ کی ضرورت ہے۔
صدر رجب طیب ایردوان سے باضابطہ مذاکرات کے بعد، انقرہ سے ٹیلی ویژن پر اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’’کئی عشروں سے افغانوں نے اذیت جھیلی ہے اور اب بین الاقوامی برادری کے لیے وقت آ گیا ہے کہ ملک میں لڑائی کے خاتمے میں مدد دے‘‘۔
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ’’پاکستان پہلے ہی طالبان اور امریکیوں کے مابین مکالمے میں مدد کر رہا ہے۔ لیکن، تمام ’اسٹیک ہولڈرز‘ اور ہمسایوں کی جانب سے زیادہ ٹھوس کوشش کی ضرورت ہے‘‘۔
عمران خان نے گذشتہ ماہ ابو ظہبی میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات کا حوالہ دیا، جو امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد اور طالبان کے چوٹی کے نمائندوں کے مابین ہوئے، جس کے لیے پاکستان نے کہا تھا کہ ان کے انعقاد میں پاکستان نے مدد کی۔
خلیل زاد اور طالبان نے اس بات چیت کو ’’نتیجہ خیز‘‘ قرار دیا اور بہت جلد دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا ہے۔ باغیوں نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو کی افواج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی موجودگی امن کی جانب پیش رفت میں حائل ہے۔
اپنے کلمات میں جمعے کے روز صدر ایردوان نے اعلان کیا کہ 31 مارچ کو ترکی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد ایک سہ فریقی سربراہ اجلاس طلب کیا جائے گا، جس میں امن عمل پر غور ہوگا۔ اجلاس میں پاکستان اور افغانستان شریک ہوں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’’مجھے اس سربراہ اجلاس کا انتظار رہے گا، جو انشا اللہ استنبول میں منعقد ہوگا، جہاں ہمیں امید ہے کہ افغانستان، پاکستان اور ترکی (افغان) امن عمل میں مدد دے سکیں گے۔۔۔امن کی انتہائی سخت ضرورت ہے‘‘۔
امریکہ طالبان مذاکرات کے انعقاد میں پاکستان کے کردار کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی بدولت امریکہ کے ساتھ پاکستان کے روایتی کشیدہ تعلقات کی سختی میں کمی آئی۔
بدھ کے روز اپنے کلمات میں، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےباہمی تعلقات میں بہتری کو بظاہر تسلیم کیا۔ اُن کے الفاظ میں ’’ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔۔۔اس لیے، میں پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کا منتظر ہوں۔ اور ایسا کرنے میں بہت دن نہیں لگیں گے‘‘۔
عمران خان کا سرکاری دو روزہ دورہٴ ترکی جمعے کے دن مکمل ہوا۔ جولائی میں پاکستان میں انتخابات جیتنے کے بعد یہ اُن کا ترکی کا پہلا دورہ تھا۔ دونوں مسلمان ملکوں کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں۔