اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے پڑوسی ملک بھارت کو ایک مرتبہ پھر دعوت دی ہے کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے تنازع کشمیر کے پرامن حل کی راہ تلاش کرنی چاہییئے۔
بدھ کو مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنوں ملکوں کو خطے میں آباد ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے ایک نئے عہد کا آغاز کرنا چاہیئے۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر پرامن طور حل نہیں ہو گا اس خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا برقرار رہے گی جس سے ترقی اور استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے ہم بھارت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حساس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے اس کے پرامن حل کی جانب ہماری دعوت کا مثبت جواب دے گا۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت قیام امن کے لیے بھارت کے ساتھ ہر تجویز پر غور کے لیے تیار ہے۔
’’پاکستان اپنے اس موقف کا بارہا اظہار کر چکا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول مسئلہ کشمیرکو بامعنی، نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔‘‘
کشمیر کا علاقہ روز اول ہی سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع اور کشیدگی کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد کو تقویت دینے کے لیے کشمیر کو منقسم کرنے والی حدبندی لائن کھولنے اور اس کے آرپار تجارت و آمدورفت سمیت کئی اقدامات کا آغاز کیا جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے۔ ان کے بقول اگر بھارت کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات فروغ پا سکتے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف متعدد بار اس خواہش اور عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے تھے۔ لیکن گزشتہ ستمبر میں نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات پر اتفاق ہوا تھا۔
نواز شریف نے حکومت میں آنے کے بعد اپنی وزارت خارجہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ علاقائی ممالک خاص طور پر بھارت اور افغانستان سے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
وہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی چکے ہیں جو ان کے بھارتی ہم منصب نے قبول کر لی تھی اور توقع ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں یہ دورہ کریں گے۔
بدھ کو مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنوں ملکوں کو خطے میں آباد ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے ایک نئے عہد کا آغاز کرنا چاہیئے۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر پرامن طور حل نہیں ہو گا اس خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا برقرار رہے گی جس سے ترقی اور استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے ہم بھارت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حساس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے اس کے پرامن حل کی جانب ہماری دعوت کا مثبت جواب دے گا۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت قیام امن کے لیے بھارت کے ساتھ ہر تجویز پر غور کے لیے تیار ہے۔
’’پاکستان اپنے اس موقف کا بارہا اظہار کر چکا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول مسئلہ کشمیرکو بامعنی، نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔‘‘
کشمیر کا علاقہ روز اول ہی سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع اور کشیدگی کی ایک بڑی وجہ رہا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد کو تقویت دینے کے لیے کشمیر کو منقسم کرنے والی حدبندی لائن کھولنے اور اس کے آرپار تجارت و آمدورفت سمیت کئی اقدامات کا آغاز کیا جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے۔ ان کے بقول اگر بھارت کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات فروغ پا سکتے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف متعدد بار اس خواہش اور عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے تھے۔ لیکن گزشتہ ستمبر میں نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات پر اتفاق ہوا تھا۔
نواز شریف نے حکومت میں آنے کے بعد اپنی وزارت خارجہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ علاقائی ممالک خاص طور پر بھارت اور افغانستان سے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
وہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی چکے ہیں جو ان کے بھارتی ہم منصب نے قبول کر لی تھی اور توقع ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں یہ دورہ کریں گے۔