پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پیر کو سعودی عرب پہنچے۔
ان کے اس دورے کے دوران دوطرفہ اُمور کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال پر بھی بات چیت متوقع ہے، وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی پاکستانی وفد میں شامل ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ایک ایسے وقت سعودی عرب کا دورہ کر رہی ہے جب اس سے ایک روز قبل ہی سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد میں شامل 41 ممالک کے وزرائے دفاع کا اجلاس ریاض میں ہوا تھا۔
اس اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ دفاع خرم دستگیر خان نے کی۔
مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت سعودی حکومت نے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو سونپ رکھی ہے۔
اُنھوں نے اتوار کو ریاض میں ہونے والے اجلاس میں کہا تھا کہ مسلمان ممالک کا عسکری اتحادی کسی ملک، مسلک یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف تشکیل دیا گیا ہے۔
ایران اور خطے کی دیگر شیعہ اکثریت والی ریاستیں اس اتحاد میں شامل نہیں اور اس اتحاد کے بارے میں تہران تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے۔
پاکستانی سینیٹ رکن لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان خیلج کم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
رواں ماہ کے وسط میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی کی صورت حال پر غور کیا گیا تھا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے شرکا کو مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتے حالات خاص طور پر خطے میں سلامتی کی صورت حال پر بریفنگ دی تھی۔
اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر اتفاق کیا تھا کہ پاکستان مسلم امہ کے بہترین مفاد میں متحرک کردار ادا کرے گا۔
رواں ماہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تہران کا بھی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایران کے صدر حسن روحانی کے علاوہ ایران کی عسکری قیادت سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
اس دورے کے دوران اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے جب کہ دونوں ممالک کے سرحدی کمانڈروں کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے کے علاوہ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستان کے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں لیکن تہران اور ریاض کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان، مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کر چکا ہے۔
ماضی میں بھی سابق وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے اس وقت کے سربراہ راحیل شریف نے ثالثی کی انھی کوششوں کے سلسلے میں سعودی عرب اور ایران کے دورے کیے تھے۔