رسائی کے لنکس

پاکستان میں پولیو وائرس کا شکار بچوں کی تعداد 51


پاکستان میں پولیو وائرس کا شکار بچوں کی تعداد 51
پاکستان میں پولیو وائرس کا شکار بچوں کی تعداد 51

انسداد پولیو مہم کے دوران غیر تربیت یافتہ رضاکاروں کی تعیناتی اور گھر گھر جا کرے قطرے پلانے والی ٹیموں کے پاس پولیو ویکسین کوبلند درجہ حرارت سے محفوظ رکھنے کے لیے غیر مناسب انتظام بھی بعض علاقوں میں مہم کے غیر موثر ہونے کی وجوہات ہیں۔ تاہم پاکستان خصوصا ًملک کے شمالی مغربی حصوں میں عسکریت پسندوں اور ان کے خلاف شروع کی گئی فوجی مہم کی وجہ سے انسداد پولیو کی کوششوں کو مزید متاثر کیا ہے کیونکہ امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث ان علاقوں میں آبادی تک سرکاری ٹیموں کی رسائی بہت مشکل ہوگئی ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خلاف سرکاری مہم کو درپیش مشکلات کے باعث رواں سال اب تک 51 بچے اس خطرناک وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تعداد ملک میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں اضافے کے رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔

پولیو وائرس کا شکار ہونے والے ان بچوں کی زیاد ہ تعداد صوبہ بلوچستان، سندھ اور وفاق کے زیر انتظام فاٹا کے قبائلی علاقوں میں ہیں۔

انسانی جسم کو اپاہج کردینے والے اس خطرناک وائرس کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان نے عالمی اداروں کے تعاون سے باقاعدگی سے پانچ سا ل سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کی مہم شروع کررکھی ہے اور محکمہء صحت کے اعلیٰ عہدے دار ہر تقریب اور سیمینار میں پولیو مہم کے اہداف کے حصول میں نمایاں کامیابی کا تذکرہ بھی کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن سرکاری دعوؤں کے برعکس 2011ء میں پولیو کے نئے مریضوں کی پاکستان میں تعداد چاڈ (65) اور کانگو (55) کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ افغانستان اور بھارت میں یہ تعداد بالترتیب چار اور ایک ہے۔

ان دنوں بھی پاکستان کے 68 منتخب اضلاع ، قصبوں اور قبائلی ایجنسیوں میں پانچ سال سے کم ایک کروڑ 74لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ذیلی قومی مہم جاری ہے۔ تاہم سمندری طوفان کے انتباہ کے باعث سندھ کے چار اضلاع جبکہ خیبر پختون خواہ کے سات اور بلوچستان کے دو اضلاع میں غیر تسلی بخش تیاریوں کے باعث یہ مہم ملتوی کردی گئی ہے۔

پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو تیز کرنے کے سلسلے میں مصر میں آئندہ ہفتے (23 اور24 جون کو) ایک بین الاقوامی اجلاس ہو رہا ہے جس میں پاکستانی وفد بھی شرکت کرے گا۔

امریکہ سمیت کئی ممالک کے علاوہ غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیمیں بھی پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے پاکستان کو مالی امداد فراہم کررہی ہیں۔ ان میں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی فلاحی تنظیم بھی شامل ہیں۔

بل گیٹس
بل گیٹس

بل گیٹس نے جمعہ کی شب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ٹیلی فون کر کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کے قبائلی علاقوں تک ا نسداد پولیو کی سرکاری مہم کی رسائی میں مشکلات پر اظہار تشویش کیا ۔

تاہم ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ جن علاقوں میں پولیو کے نئے مریض سامنے آئے ہیں وہاں محکمہ صحت اُن کی ہدایت پر خصوصی توجہ دے رہا ہے اوروزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم خصوصی پولیو مانیٹرنگ سیل میں مجموعی صورت حال پر گہری نظر رکھی جارہی ہے ۔

اُنھوں نے کہا کہ پولیو کے 51 نئے کیس اُن علاقوں میں سامنے آئے ہیں جہاں اس وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ ہیں اور حکومت نے اس کا تدارک کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔

بل گیٹس کی تنظیم نے پولیو کے خلاف عالمی مہم کے لیے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایک ارب ڈالرسے زائد رقم فراہم کی ہے جس میں پاکستان میں انسداد پولیومہم کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ ڈالربھی شامل ہیں۔

دیگر محکموں کی طرح پاکستان کے محکمہء صحت میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی اطلاعات مقامی اخبارات میں تسلسل سے سامنے آتی رہی ہیں اور جوپولیو سمیت دیگر بیماریوں کے خلاف سرکاری کوششوں میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔

انسداد پولیو مہم کے دوران غیر تربیت یافتہ رضاکاروں کی تعیناتی اور گھر گھر جا کرے قطرے پلانے والی ٹیموں کے پاس پولیو ویکسین کوبلند درجہ حرارت سے محفوظ رکھنے کے لیے غیر مناسب انتظام بھی بعض علاقوں میں مہم کے غیر موثر ہونے کی وجوہات ہیں۔

مہمند ایجنسی میں پاکستانی فوج
مہمند ایجنسی میں پاکستانی فوج

تاہم پاکستان خصوصا ًملک کے شمالی مغربی حصوں میں عسکریت پسندوں اور ان کے خلاف شروع کی گئی فوجی مہم کی وجہ سے انسداد پولیو کی کوششوں کو مزید متاثر کیا ہے کیونکہ امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث ان علاقوں میں آبادی تک سرکاری ٹیموں کی رسائی بہت مشکل ہوگئی ہے۔

پاکستان فوجی حکام کا کہنا ہے کہ فاٹا کے زیر انتظام مہمند ایجنسی کی سات تحصیلوں سے عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے بعد افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں پہلی مرتبہ انسداد پولیو کی مہم شروع کی گئی ہے۔ مہمند ایجنسی کی آباد ی تقریباََ چھ لاکھ ہے اور عسکریت پسندوں کے غلبے کی وجہ سے یہاں پولیوں کی مہم اس سے پہلے کبھی شروع نہیں کی جاسکی تھی۔

پاکستانی محکمہ صحت کے حکام افغان مہاجرین کو بھی پولیوکے خاتمے کی کوششوں میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ باقاعدگی سے سرحد کے آر پار نقل و حرکت کرتے ہیں اور یوں پولیو کے وائرس کو پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG